رات تحریروں کی اب یکسر خیالی ہو گئی
رات تحریروں کی اب یکسر خیالی ہو گئی
لفظ جب جاگے عبارت بھی نرالی ہو گئی
انگنت چہرے تھے شہر دل میں لیکن کیا کہوں
وقت کا سایہ پڑا بستی یہ خالی ہو گئی
جن کا اک اک لفظ تھا مژدہ نئے موسم کے نام
حیف ان صفحات کی صورت بھی کالی ہو گئی
دل کے محبس سے چلے تھے قافلے یادوں کے پر
اک کرن پلکوں کی سولی پر سوالی ہو گئی
ہم سفر شائستگی تھی رہ گزار زیست میں
پھر بھی جس سے بات کی ہر بات گالی ہو گئی
حادثوں کی دھند سے فن کار نے جس کو گڑھا
شکر ہے اس بت کی پیشانی اجالی ہو گئی
کیسے اس موسم کو دور گل کہوں امیدؔ میں
رنگ سے محروم جب اک ایک ڈالی ہو گئی