داعش میں خواتین کی بڑی تعداد کیسے شامل ہوئی: آزادے میوانی کی کتاب پر تبصرہ

دولت اسلامیہ عراق و شام  کے جال میں  ترقی یافتہ یورپ سے لے کر افریقہ کے بد حال ممالک تک مرد تو  پھنسے ہی تھے، لیکن کیا خواتین کے لیے بھی جال بنا گیا تھا؟ کیا  اس جال  میں دکھائے گئے خواتین کے لیے خواب مردوں سے مختلف تھے؟ یورپ کے نام نہاد انسانی آزادیوں والے ممالک میں ایسا کیا تھا کہ مرد تو مرد خواتین کو اپنا مستقبل دولت اسلامیہ کے قیام میں نظر آنے لگا؟ وہ کیا پیغام تھا کہ خواتین اپنی جان اور عزت سب داؤ پر لگا کر کر، اپنا گھر بار چھوڑ کر دولت اسلامیہ پہنچیں، وہ کون تھا جس نے ان کی پہنچنے میں مدد کی؟  پہنچ کر ان کو  کیسے حالات دیکھنے کو ملے؟ پھر وہ کیسے دولت اسلامیہ سے مایوس ہوئیں؟ جنگ و جدل میں انہوں نے وقت کیسے کاٹا؟ جنگ و جدل، فتنہ و فساد سے کیا وہ  نکلنے میں کامیاب رہیں یا ماری گئیں؟  اب  وہ کن حالات میں ہیں؟

ان اور ان سے ملتے جلتے مزید کئی سوالات سے پردہ ایرانی نژاد امریکی صحافی آزادے میوانی نے اپنی کتاب Guesthouse for Young Widows among ISIS  میں اٹھایا ہے۔ Journalist Azadeh Moaveni on "Guest House for Young Widows" | Video |  Amanpour & Company | PBS 

کتاب کی تحریر کیسی ہے؟

آزادے کی کتاب اس حوالے سے  نہایت ہی اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی  کتاب میں دس بارہ ایسی خواتین  کی کہانیاں بیان کی ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل ہی الگ پس منظر رکھتی  ہیں۔ ان کے ممالک مختلف  ہیں اور ان کے دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے عزائم بھی مختلف  ہیں۔  مثلاً وہ ایما دنیا نامی جرمن خاتون کی کہانی سناتی   ہیں،  جو   جرمنی میں بسنے والے  ترک مسلمان خاندانوں کی معاشرت  سے متاثر ہو کر مسلمان ہوتی ہیں۔ سلام نامی ترک سے شادی کرتی ہیں، جو شادی کے بعد داعش کے پراپیگنڈہ کی نظر ہونے لگتا ہے۔  اسے داعش کی اسلامی ریاست بنا کر  مغربی طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل بھاتی ہے۔ وہ بشارالاسد کے مظالم سے شامی مسلمانوں کو چھڑانا چاہتا ہے۔ ایما دنیا کی خواہش نہیں ہوتی دولت اسلامیہ جانے کی، لیکن وہ شوہر کا ساتھ دیتی ہیں۔  دوسری طرف وہ  برطانیہ میں بسنے والی چار سہیلیوں شمیمہ، خدیجہ، امیرہ اور شرمینا کی کہانی  ہے  جو چودہ پندرہ سالہ اسکول کی طالبات ہیں۔ ان میں سے پہلے ایک سوشل میڈیا پر داعش کی بلاگر ام لیث سے متاثر ہوتی ہے۔ ام لیث داعش میں خواتین کی زندگی، ان کی اسلام کے  مطابق زندگی گزارنے کے مواقعوں، معاشرت اور دیگر پہلوں پر پراپیگنڈہ بلاگ لکھتی ہے۔ پہلے خدیجہ اس کے جال میں پھنستی ہے اور  ایک اسلامی ملک میں شریعت کے مطابق زندگی کا خواب سجائے دولت اسلامیہ کا رخ کرتی ہے۔ وہ اتنی خاموشی سے داعش کے جال میں  پھنستی ہے کہ گھر والوں کو اس وقت معلوم پڑتا ہے جب وہ برطانیہ سے ترکی پہنچ چکی ہوتی ہے اور وہاں سے بذریعہ بس شام کا رخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بعد میں اس کی تینوں سہیلیاں  بھی اس کے پیچھے  پیچھے پہنچ جاتی ہیں۔ ان کے داعش جانے پر  برطانوی میڈیا ان کے خلاف وہ محاذ گرم کرتا ہے کہ پیچھے رہ جانے والے گھر والوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔   اب دو ان میں سے ماری جا چکی ہیں۔ شمیمہ، جوبچ بچا کر   دولت اسلامیہ سے نکل جاتی ہیں، آج کل کردش شام میں مہاجرین کیمپ میں موجود  ہیں اور دہائیاں دے دے کر  برطانوی حکومت سے واپس آنے کی اجازت مانگ رہی ہیں۔ برطانیہ جو ان کی شہریت منسوخ کر چکا ہے، ایسی بچی جو پندرہ برس کے کچے ذہن کے  ساتھ داعش کے نرغے میں پھنسی ، صرف بائیس تئیس سال کی عمر میں تین بچے گنوا چکی ہے،  اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہتی ہے، لیکن اس کا ملک اس کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اسی طرح آزادے تیونس سے نور، غفران اور رحمہ کی کہانی بھی سناتی ہیں اور شام کی مقامی  اسما کی بھی۔ کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ آزادے  جہاں  داعش کے نرغے میں پھنسنے والے کرداروں کی کہانیاں سناتی ہیں وہیں ان ممالک کے  سیاسی، معاشی اور سماجی حالات سے بھی پردہ اٹھاتی ہیں  جہاں  کی وہ شہری ہوتی ہیں۔  پھر انتہائی ہمدردانہ انداز سے ان حالات کو تحریر کرتی ہیں جو ان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر داعش پہنچ جائیں۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ کے سامنے بالکل ایک صاف تصویر بن جاتی ہے ان حالات کی جس سے لاکھوں مسلمان گزرے اور گزر رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب میں صرف ان خواتین کے حالات درج نہیں ہوئے جو داعش میں شامل ہونے کے لیے شام یا عراق  پہنچیں۔ بلکہ ایسی بھی خواتین کا ذکر ہے جو داعش میں تو شامل نہیں ہوئیں لیکن ان کے بھائی یا شوہر ضرور شامل ہوئے۔ مثلاً کتاب میں نور نامی لڑکی کی کہانی موجود ہے جو تیونس کی شہری ہے۔ وہی تیونس جہاں سے عرب  بہار کا آغاز ہوا۔ نور فرانسیسی اقدار کے حامل اسکول میں پڑھتی ہے، جہاں اسے حجاب کرنے سے باز نہ آنے پر اسکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ تیونس میں  اس وقت ایسے حکمران براجمان ہوتے ہیں جو تیونس کو فرانسیسی اقدار کے مطابق سیکولر ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی پولیس ان خواتین کو باقاعدہ ہراساں کرتی ہے جو حجاب کرتی ہیں۔ 2011 میں تیونس میں انقلاب آتا ہے اور اسلام پسند جماعت برسراقتدار آ جاتی ہے۔ لیکن  سماج میں کچھ زیادہ فرق نہیں آتا۔ نور کی شادی ایسے شخص سے ہوتی ہے جو فرانس سے ڈی پورٹ ہو کر آتا ہے۔ بعد میں وہ داعش سے متاثر ہونے لگتا ہے اور کچھ معاشی، کچھ مذہبی رجحانات کی بنا پر وہ شام چلا جاتا ہے۔ پیچھے نور کو پولیس اتنا ہراساں کرتی ہے کہ وہ حجاب  چھوڑ  کر مغربی لباس  زیب تن کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ ۔ 

آزادے میوانی نے کتاب  کے لیے مواد کیسے اکٹھا کیا؟

آزادے ایک منجھی ہوئی صحافی  ہیں جو مشرق وسطیٰ  کے حالات کو  برسوں سے رپورٹ کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق کتاب میں درج شدہ تمام کہانیاں اصل ہیں، جنہیں کچھ کرداروں کا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام بدل کر پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے لیے ان خواتین کے انٹرویوز کیے گئے ہیں جو  کسی نہ کسی طرح داعش سے منسلک رہی  ہیں۔ یہ انٹرویوز برطانیہ، تیونس، جرمنی اور ترکی جا کر ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ باقی کتاب میں درج شدہ  ممالک کے حالات کو براہ راست آزادے رپورٹ بھی کرتی رہی ہیں اور ان کے لیے انہوں نے دیگر سکالرزکی کتب سے استفادہ بھی کیا ہے۔

Syrian regime clears last IS bastion in Aleppo province - Al-Monitor: The  Pulse of the Middle East

حاصل کلام:

کتاب میں سب  سے اہم بات یہ ہے کہ مصنفہ نے انتہائی ہمدردانہ انداز سے ان  کرداروں کو دیکھا ہے جو داعش کے رکن رہے ہیں۔ عام میڈیا کے برعکس انہوں نے انہیں دہشت گرد، انتہا پسند اور تنگ نظر جیسے القابات سے نہیں نوازا۔ بلکہ ان حالات کی وضاحت کی ہے جن میں ایک  عام شخص جو اسلام  سے متاثر ہوتا ہے، شریعت پر عمل کر کے جنت کا حصول چاہتا ہے، لیکن اپنے ہاں ماحول موافق نہیں پاتا۔ انہوں  نے بڑی وضاحت سے بتایا ہے کہ داعش کے پراپیگنڈسٹ مغربی طاقتوں  کے جن مظالم اور امتیازی سلوک کی بات کرتے ہیں، کیسے مغربی طاقتیں اپنے رویے سے ان کی بات پر مہر ثبت کر  دیتی ہیں۔  بہت کمال انداز سے وہ حق اور باطل، سچ اور جھوٹ اور سیاہ و سفید کی  گڈ مڈ ہوئی لکیروں کی وضاحت کرتی ہیں۔  وہ کہتی ہیں کہ برائی کا جواب ایک اور برائی نہیں ہوتا۔ اگر وہ ہمارے معصوم لوگوں کو مارتے ہیں تو یہ ضروری نہیں ہم بھی جا کر ان کے معصوم انسانوں کو قتل کرنا شروع کر دیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔  میرا خیال ہے کہ اسلام بھی ہمیں اس کی ہی ترغیب دیتا ہے۔ جنگ کے اصول ہوتے ہیں۔ اگر اغیار ان کی پاسداری نہیں کرتے تو ضروری یہ ہے کہ ہم اتنے طاقت ور اور مضبوط ہوں کہ ان کا ہاتھ پکڑ سکیں۔ لاقانونیت جنگ ہی میں کیوں نہ ہو صرف فساد کا باعث ہوتی ہے ، یہ کسی طور بھی امن کو جنم  نہیں دے سکتی۔

متعلقہ عنوانات