قومی زبان

ہم جبر محبت سے گریزاں نہیں ہوتے

ہم جبر محبت سے گریزاں نہیں ہوتے زلفوں کی طرح تیری پریشاں نہیں ہوتے اے عشق تری راہ میں ہم چل تو رہے ہیں کچھ مرحلے ایسے ہیں جو آساں نہیں ہوتے داناؤں کے بھی ہوش اڑے راہ طلب میں ناداں جنہیں کہتے ہو وہ ناداں نہیں ہوتے جلووں کے ترے ہم جو تماشائی رہے ہیں سو جلوے ہوں نظروں میں تو حیراں ...

مزید پڑھیے

سوال کیا ہے جواب کیا ہے

سوال کیا ہے جواب کیا ہے یہ عذر خانہ خراب کیا ہے میں اپنی ہستی بدل رہا ہوں یہ سب حساب و کتاب کیا ہے تری محبت کے نام سب کچھ مرا کوئی انتساب کیا ہے کنارہ خود سے ہی کر لیا ہے اب اور حد اجتناب کیا ہے سفر ہی بس کار زندگی ہے عذاب کیا ہے ثواب کیا ہے

مزید پڑھیے

یوں بھی تو تری راہ کی دیوار نہیں ہیں

یوں بھی تو تری راہ کی دیوار نہیں ہیں ہم حسن طلب عشق کے بیمار نہیں ہیں یا تجھ کو نہیں قدر ہم آشفتہ سروں کی یا ہم ہی محبت کے سزاوار نہیں ہیں کیا حاصل کار غم الفت ہے کہ مجنوں اب دشت نوردی کو بھی تیار نہیں ہیں اکثر مرے شعروں کی ثنا کرتے رہے ہیں وہ لوگ جو غالب کے طرفدار نہیں ہیں اب ...

مزید پڑھیے

تمام شہر ہی تیری ادا سے قائم ہے

تمام شہر ہی تیری ادا سے قائم ہے حصول کارگہہ غم دعا سے قائم ہے تسلسل اس کے سوا اور کیا ہو مٹی کا یہ ابتدا بھی مری انتہا سے قائم ہے خدا وجود میں ہے آدمی کے ہونے سے اور آدمی کا تسلسل خدا سے قائم ہے تمام جوش محبت تمام حرص و ہوس وفا کے نام پہ ہر بے وفا سے قائم ہے یہ فاصلہ فقط ایک ریت ...

مزید پڑھیے

یہ کار بے ثمر ہے اگر کر لیا تو کیا

یہ کار بے ثمر ہے اگر کر لیا تو کیا اک دائرے میں ہم نے سفر کر لیا تو کیا دنیا سے میں نے بھی کوئی رغبت نہیں رکھی اس نے بھی مجھ سے صرف نظر کر لیا تو کیا خوشبو کبھی گرفت میں آئی نہ آئے گی پھولوں کو تو نے زیر اثر کر لیا تو کیا ڈھیروں ستارے اب بھی ترے آس پاس ہیں میں نے پسند ایک شرر کر لیا ...

مزید پڑھیے

تجھے کیا خبر

تری آرزو جسے میں نے سب سے الگ رکھا اسے دل کے نرم غلاف سے کبھی جھانکنے بھی نہیں دیا کہ یہ خواہشوں کے ہجوم میں کہیں اپنی قدر گنوا نہ دے تری چھوٹی چھوٹی نشانیوں کو بڑے قرینے سے پوٹلی میں لپیٹ کر کبھی کوٹھری میں چھپا دیا کبھی ٹانڈ پر رکھے دیگچے میں گرا دیا کہ پرے پرے رہیں چشم چرخ کبود ...

مزید پڑھیے

آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مرا جسم

آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مرا جسم شاید اسی صورت ہی سکوں پائے مرا جسم آغوش میں لے کر مجھے اس زور سے بھینچو! شیشے کی طرح چھن سے چٹخ جائے مرا جسم یا دعویٔ مہتاب تجلی نہ کرے وہ یا نور کی کرنوں سے وہ نہلائے مرا جسم کس شہر طلسمات میں لے آیا تخیل جس سمت نظر جائے نظر آئے مرا جسم آئینے ...

مزید پڑھیے

غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے

غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے مرے لیے مری ہمشیر ماؤں جیسی ہے بھٹکتا ہوں تو مجھے راستہ دکھاتی ہے وہ ہم سفر ہے مگر رہنماؤں جیسی ہے ہو جیسے ایک ہی کنبے کی ساری آبادی فضا ہمارے محلے کی گاؤں جیسی ہے نئے بشر نے مسخر کئے مہ و انجم نئے دماغ میں وسعت خلاؤں جیسی ہے حقیقتوں کے ...

مزید پڑھیے

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے دل پہروں مرا کرب کے دوزخ میں جلا ہے عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے ہر اہل ہوس جیب میں بھر لایا ہے پتھر ہمسائے کی بیری پہ ابھی بور پڑا ہے اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ...

مزید پڑھیے

چھت کی کڑیاں جانچ لے دیوار و در کو دیکھ لے

چھت کی کڑیاں جانچ لے دیوار و در کو دیکھ لے مجھ کو اپنانے سے پہلے میرے گھر کو دیکھ لے چند لمحوں کا نہیں یہ عمر بھر کا ہے سفر راہ کی پڑتال کر لے راہبر کو دیکھ لے اپنی چادر کی طوالت دیکھ کر پاؤں پسار بوجھ سر پر لادنے سے قبل سر کو دیکھ لے ایک حرکت سے بدل جاتا ہے لفظوں کا مزاج اپنی ہر ...

مزید پڑھیے
صفحہ 572 سے 6203