جنگل
ہرے بھرے یہ جنگل بن سارے پرانی کا مسکن اک دنیا آباد وہاں ہر کوئی آزاد وہاں
ہرے بھرے یہ جنگل بن سارے پرانی کا مسکن اک دنیا آباد وہاں ہر کوئی آزاد وہاں
بنجر ہیں پتھریلے ہیں اور کہیں برفیلے ہیں دل کش ہیں شاداب بھی ہیں خود میں سمیٹے خواب بھی ہیں
درپن چاند ستاروں کا فطرت کے نظاروں کا گہری چنچل نیلی جھیل حد نظر تک پھیلی جھیل
میں کرب بت تراشیٔ آذر میں قید تھا شعلے کا کیا قصور جو پتھر میں قید تھا جس کی تہوں میں خود ہی مچلتی ہیں آندھیاں میں خواہشوں کے ایسے سمندر میں قید تھا پھینکے ہے مجھ کو دور یہ گردش ہے کتنی تیز کن مشکلوں سے ذات کے محور میں قید تھا آتے ہیں سارے راستے مڑ کر یہیں شکیلؔ زنداں مرا یہی ...
کن حوالوں میں آ کے الجھا ہوں تیری آنکھوں میں خود کو پڑھتا ہوں کون مجھ میں ہے بر سر پیکار روز کس سے جہاد کرتا ہوں راہ مڑ مڑ کے لوٹ آتی ہے گھر سے جب بھی ذرا نکلتا ہوں رشتۂ دل کسی سے ٹوٹا ہے روز راہیں نئی بدلتا ہوں آنسوؤں سے ہوا کے آنچل پر کس ستم گر کا نام لکھتا ہوں
تجھ سے ٹوٹا ربط تو پھر اور کیا رہ جائے گا انتشار ذات کا اک سلسلہ رہ جائے گا قربتیں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا چند یادوں کے سوا بس اور کیا رہ جائے گا یہ تغافل ایک دن اک سانحہ بن جائے گا عکس تو کھو جائے گا اور آئنہ رہ جائے گا وقت میں لمحہ سا میں تحلیل ہوتا جاؤں گا خالی آنکھوں ...
یہ شبنم پھول تارے چاندنی میں عکس کس کا ہے سنہری دھوپ چھاؤں روشنی میں عکس کس کا ہے یہ ڈھلتی شام یہ قوس قزح کی رنگ آمیزی یہ نیلے آسماں کی دل کشی میں عکس کس کا ہے سہانی شب لئے آغوش میں خوابوں کی پریوں کو چمکتے دن کی اس افسوں گری میں عکس کس کا ہے انا کی سرکشی امید ارماں خواب کی ...
ریزہ ریزہ جیسے کوئی ٹوٹ گیا ہے میرے اندر کون ہے سیدؔ کرب جو اتنے جھیل رہا ہے میرے اندر اجڑی اجڑی خواب کی بستی صحرا صحرا آنکھیں میری جانے یہ طوفان کہاں سے آج اٹھا ہے میرے اندر خاموشی سے جھیل رہی ہے گرمی سردی ہر موسم کی مجبوری کی چادر اوڑھے ایک انا ہے میرے اندر آج نہ جانے کیوں ...
بیٹھے رہیں گے تھام کے کب تک یوں خالی پیمانے لوگ حد سے بڑھے جب تشنہ لبی تو پھونک نہ دیں میخانے لوگ ہم دنیا کو دے کر خوشیاں غم بدلے میں لیتے ہیں ڈھونڈے سے بھی اب نہ ملیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ کیا جانیں یوں دل کے کتنے زخم ہرے ہو جاتے ہیں چھیڑ کے بات اک ہرجائی کی آتے ہیں سمجھانے ...
اک تمنا ہے خموشی کے کٹہرے کتنے دل کی دہلیز پہ احساس کے پہرے کتنے کتنے گہرے ہیں کہ اک عمر لگی بھرنے میں ویسے لگتے ہیں سبھی زخم اکہرے کتنے سب نے دیکھے مرے ہونٹوں پہ تبسم کے گلاب کس نے دیکھا ہے مرے زخم ہیں گہرے کتنے کتنے ارماں کا لہو ان میں بسا ہے سیدؔ یوں تو لگتے ہیں سبھی خواب ...