ایک ان کہا سوال: بتا اے ہم سفر مجھ کو
کسی کے دامنِ صد چاک اور اِک دوسرے کے ساتھ سے ؛ محروم ہوتے ، چُھوٹتے ، ؛ ہاتھوں سے ہاتھوں میں ؛ بہت بُھولے ہُوئے رِشتوں ؛ کبھی بِسرے سے ناطوں میں
کسی کے دامنِ صد چاک اور اِک دوسرے کے ساتھ سے ؛ محروم ہوتے ، چُھوٹتے ، ؛ ہاتھوں سے ہاتھوں میں ؛ بہت بُھولے ہُوئے رِشتوں ؛ کبھی بِسرے سے ناطوں میں
بیشتر ایک استعمار ، کسی دوسرے استعمار کو گھر بھیج کر خود مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے لیے میرے اور آپ کے خون کو استعمال کرتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم بظاہر فتح یاب ، غازی ، شہید یا شہدا کے وارث ہو کر بھی تہی دست رہ جاتے ہیں۔ اور ان تحاریک میں کچلے جانے والے فرد کو چہار دانگ عالم سے کوئی مددگار نہیں ملتا ، کوئی پُرسانِ حال میسر نہیں آتا ،" پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں" ، کہ استعمار کی سرشت و منشور میں فرد کا تحفظ یا فلاح و بہبود کبھی تھے ہی نہیں۔
اگر آپ کا تعلق اونچے طبقہ سے ہے تو کسی ’’سرا‘‘ میں ٹھہرنا آپ کے لیے باعث توہین، لیکن کسی ’’ہوٹل‘‘ میں قیام کرنا ذرا بھی باعث شرم نہیں، حالانکہ دونوں میں کیا فرق بجز اس کے ہے کہ ’’سرا‘‘ مشرقی ہے، ہندوستانی ہے، دیسی ہے اور ’’ہوٹل‘‘ مغربی ہے، انگریزی ہے، ولایتی ہے۔ کوئی اگر یہ کہہ دے کہ ’’سرا‘‘ کے فلاں ’’بھٹیارے‘‘ سے آپ کا یارانہ ہے تو آپ اس کا منہ نوچ لینے کو تیار ہو جائیں لیکن فلاں ہوٹل کے منیجر سے آپ کا بڑا ربط وضبط ہے اسے آپ فخریہ تسلیم کرتے ہیں۔
امجد اسلام امجد کی تغیر کی آرزو لیے ایک نظم " کوئی گرد باد اُٹھے کہِیں ، کسی زلزلے کی نمود ہو " یا جوش ملیح آبادی کے الفاظ میں ، " نہ بُوئے گُل نہ بادِ صبا مانگتے ہیں لوگ ؛ وہ حبس ہے ، کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ "
مرزا غالب اور شوکت تھانوی کی برجستگی
قمرجلالوی کو زبان پر بلا کی دسترس حاصل تھی۔ اسی لیے ان کے یہاں فکر کی شدت کم ہے اور زبان کا ذائقہ بہت زیادہ۔ ان کے اشعار سہل ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے اور سامع کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اسی سادگی کی وجہ سے قمر کے کلام کو ایسی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی کہ ہندو پاک کا شاید ہی کوئی ا یسا نامور گلوکار اور گلوکارہ ہو جس نے ان کے کلام کو اپنی آواز نہ دی ہو۔
مغرب کی بد تہذیبیوں میں سے ایک بدتمیزی اور ہمارے برقی ذرائع ابلاغ میں در آئی ہے۔ انگریزی زبان میں ’آپ، تم اور تُو‘ کا فرق تو ہے نہیں، You کی لاٹھی سے سب کو ہانکا جاتا ہے۔ وہاں القاب و آداب کے بغیر نام لے کرپکارنا بے تکلفی کا اظہارہے۔ اگر پیارسے پُکارنے کا نام معلوم ہو جائے تو کیا کہنے۔ معلوم نہ ہو تب بھی ایلزبتھ کو لزی اور جیکب کو جیکی پکارنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس عمل کی نقالی نے اردو زبان کی تہذیب، ادب آداب اور رکھ رکھاؤ کو متاثر کیا ہے۔
گنتی سے بننے والے محاوروں کی گنتی کرنا آسان نہیں۔صرف عدد ’ایک‘ سے بننے والے چند محاوروں پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ’ایک آنچ کی کسر رہ جانا‘یعنی ذرا سانقص یا کمی باقی رہ جانا۔’ ایک آنکھ سے دیکھنا‘یعنی سب کو یکساں سمجھنا، اپنے پرائے کا فرق نہ کرنا، انصاف پسند ہونا۔’ ایک آنکھ نہ بھانا‘ یعنی بالکل ہی پسند نہ آنا۔’ ایک انڈا وہ بھی گندا‘ یہ محاورہ بالعموم ایک ہی بیٹا اور وہ بھی نالائق ہونے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے، یا ایک ہی چیز میسر ہو اور وہ بھی ناکارہ۔’ ایک اور ایک گیارہ‘یا ’ ایک سے دو بھلے‘
انگریزی الفاظ کا غلبہ شاید قبول کرلیا جاتا، مگر مسلمانانِ پاکستان اپنی زبان کو قرآن و حدیث سے قریب رکھنا چاہتے ہیں، کہ ہمارے بچے جب قرآنِ مجید کی تلاوت کریں یا کسی حدیثِ مبارکہ کے اصل الفاظ پڑھیں تو اجنبیت محسوس نہ کریں۔ سورۃ الفاتحہ کے تقریباً تمام الفاظ ہمارے اُردو روزمرہ کا حصہ ہیں۔
کیا راہ بدلنے کا گِلہ، ہم سفروں سے؟؟؟ ؛ جس رَہ سے چلے، تیرے در و بام ہی آئے