قدرت کے بچے

ہیلو،


نمبر اجنبی تھا مگر آواز مانوس۔ سارہ کے پور پور میں رچی بسی آواز، اس کی اپنی کھوئی ہوئی آواز، جس کی تلاش میں سارہ کا پل پل آزردہ تھا۔ خوشی تھی، غم تھا، کسک تھی، خوف یا جھجک۔۔۔ کچھ تھا جس نے یوں خنجر گھونپا کہ سسکی آہ میں بدل گئی۔


How are you.


وہی صدیوں پرانا رٹا رٹایا سوال۔۔۔ وہی اس کا پرانا گھسا پٹا جھوٹ۔۔۔


I am good.


لہجے کے ارتعاش نے جسم کی رگ رگ کو مرتعش کردیا تھا۔ سارہ کارواں رواں لرز رہا تھا۔


I have heard that you have a beautiful daughter, am i right?


اس نے سوال کیا۔


Yes, I have.


سارہ نے آہستگی سے جواب دیتے ہوئے برابر میں گہری نیند میں سوئی ’’کارلا‘‘ کی طرف دیکھا۔


معصومیت کا ننھا سے پیکر۔۔۔ سارادن کھیل کھیل کر، تھک کر ننھے سے ٹیڈی بیئر کوہاتھ میں پکڑے، سو گئی تھی۔


میں کب ملنے آؤں؟ پھرانوکھا سوال، جسے سننے کے لیے سارہ کے کان، دل اور احساسات مدت سے بے تاب تھے، وہ جواب دینا چاہتی تھی مگر ضبط کادامن ہاتھ سے چھوٹتا نظر آرہا تھا۔


جب تمہارا دل چاہے، تمہارا اپنا گھر ہے، کہتے کہتے سارہ کا لہجہ بھیگ سا گیا۔


چند لمحے سارہ جواب سننے کی منتظر رہی، پھر آواز آئی۔


’’کل کس وقت آؤں؟‘‘


’’کسی بھی وقت۔‘‘


آفس سے کس وقت لوٹو گی؟‘‘


’’پانچ بجے۔‘‘


’’بچی کہاں ہوتی ہے۔۔۔ سارا دن۔۔؟‘‘


بچی۔ اتنے سال بعد بچی کے متعلق سوال۔۔۔ پانچ سال سے زائد۔۔۔ صبر آزما۔۔۔ تکلیف دہ وقت کی چکی میں پسے ہوئے دن رات۔ تنگ دستی، معصوم بچی کی ذمہ داری اور اکیلے پن کا شدید احساس کرتے یک بارگی سارہ کی سوچ میں تلخی کی کڑواہٹ گھل گئی۔


فی الحال تو وہ ڈے کیئر میں جارہی ہے، میں ہی پک اینڈ ڈراپ کرتی ہوں۔


’’چلو میں کل ساڑھے پانچ بجے تک آؤں گا، بچی کو تیار رکھنا۔۔۔‘‘


’’بائے۔‘‘


سارہ نے ایک نظر پھر ’’کارلا‘‘ کی طرف دیکھا۔۔۔ سوالات کے زہریلے ناگوں۔۔۔ آنسوؤں سے بھیگی راتوں اور بے مہر دنوں کی کسک سے بے خبر۔۔۔ تتلیوں اور جگنوؤں جیسا سبک ننھا سا بچپنا، مسرتوں، خوشیوں اور معصومیت کے رنگوں اور روشنیوں سے لبریز۔۔۔ دنیا کے سارے غموں کو غیر اہم کر دینے جیسا طاقتور بچپن۔۔۔ جو اوجھل ہو جائے تو پھر۔۔۔ زندگی اداسیوں کے ابدی سلسلے میں ڈھل جاتی ہے۔


رات نے گزرنا تھا گزر گئی، مگر سارہ پوری رات بہت مضطرب رہی۔ ماضی کے بارہ سال۔۔۔ کبھی ننھے ننھے خرگوش بن جاتے تو کبھی نہ ختم ہونے والے لمبے لمبے سائے۔۔۔ تاریک گہرے گھنے جنگلوں میں راستہ ڈھونڈتے رات کٹی۔۔۔ صبح کارلا کو زبردستی جگایا۔ برسوں سے یہی وتیرہ تھا۔ ایک سال اور ایک مہینے کی ننھی سی جان تھی کارلا، جب اس کی میٹرنٹی لیو ختم ہو گئی تھی۔ سوئی سوئی بچی کو ڈے کیئر میں چھوڑ کر جاب پر جاتی رہی۔


پھر جب اس کا وزن تیزی سے کم ہونے لگا تو ایک خوف دامن گیر ہو گیا۔ پتہ نہیں دودھ کی بوتل منہ سے لگاتے بھی ہوں گے یا نہیں۔۔۔ روتی رہتی ہوگی، یا اچھی طرح سنبھالتے ہوں گے مگر اور کوئی راستہ بھی نہ تھا سوائے اس کے کہ مزید مہنگے ڈے کیئر میں داخل کروا دے اور یہی اس نے کیا۔


پورا دن سارہ رزق پر اپنا نام لکھے دانوں کی تلاش میں دیوانہ وار کام کرتی رہتی اور کارلا کارزق اس کے کپڑوں میں جذب ہوتا رہتا۔ جتنا کماتی اس کا 50فیصد، بچی کو سنبھالنے والے ڈے کیئر کو دے دیتی۔ باقی پیسے گھرکے بلز اور کر ائے میں چلے جاتے۔ گھر سبسڈائزڈ تھا حکومت کی طرف سے، مگر اس مالی فائدے کی سزا یہ تھی کہ ہر طرح کامنظر ناچار دیکھنا پڑتا۔ اردگرد کے باسیوں کی اکثریت یا تو سینئر سٹیزنز پرمشتمل تھی جن کی اولادوں کو بھی ان کی خبر نہ تھی اور وہ خود اولڈ سینئر ہاؤسز کے اخراجات برداشت کرنے کے اہل نہ تھے۔ تھکے ماندے آتی جاتی بسیں پکڑ کر ہسپتال جایا کرتے، یا پھر سردی سے کپکپاتے نشئی۔۔۔ نشے میں دھت، ٹولیوں میں، کونوں کھدروں میں بیٹھے نظر آتے۔ ان سبسڈائزڈ ہاؤسزکے چکر میں۔۔۔ جدائی کی دہلیز پر پہنچتے لڑکے اور لڑکیوں کے عشق واشتیاق کے جلوے چاروں طرف کسی تھرڈریٹ فلم کے نمائشی ٹائٹل کی طرح نظروں کے سامنے موجود رہتے۔


خیر ان سبسڈائز ہاؤسز کا ملنا بھی آسان نہ تھا۔ اس کے لیے بھی درخواست دینے والوں کی لمبی فہرست ہوتی تھی۔ اور سالوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ مگر عام گھر کے مقابلے میں یہ ہاؤسز تین چار سو ڈالر سستے تھے، اور تین چار سو ڈالرز میں تو پورے مہینے کا راشن بلکہ بس کا کرایہ بھی نکل آتا تھا۔ یہیں پر کم پیسوں میں ڈے کئیر بھی ملتی تھی۔ پوش علاقوں میں تو فی گھنٹہ 20 یا 30 ڈالر لیتے تھے ایک بچہ سنبھالنے کے لیے۔


ڈیوڈ کے جانے کے بعد یہی آپشن تھا جس سے بے گھری کے عذاب سے بھی بچا جاسکتاتھا اور 20 اور 50 ڈالرز کے درمیان ہیٹنگ سسٹم بھی آن رکھا جاسکتا تھا۔ انسان کسی بھی خطے میں ہو کوئی بھی زبان بولتا ہو، کسی ایک رنگ و نسل کا ہو۔۔۔ کسی بھی انداز حکمرانی کا اسیر ہو، سر پر ایک چھت کے علاوہ جنس کے منہ زور گھوڑے کو لگامیں ڈالنے کے ساتھ ساتھ پیٹ کے تنور کو بھرے رکھنے کے لیے ہر جگہ رسوا ہے۔


خیالات تھے کہ گھٹاؤں کی طرح امڈے چلے آرہے تھے۔ ذہن پراگندہ ہو چلا تھا۔ سارہ نے گھڑی دیکھی۔ صبح کے چار بجے تھے۔ صرف دو گھنٹے بچے تھے آرام کے لیے۔ کیسا آرام۔۔ بوجھل پپوٹوں اور دکھے دل کے ساتھ وہ بڑبڑائی۔


اٹھو۔۔۔ دوڑو، بھاگو۔۔۔‘‘ گھڑی کی سوئی کے ساتھ ساتھ جہاں پیر پھسلا۔۔۔ جہاں سانس ہموار کرنے کے لیے بندہ رکا، لمحہ ہاتھ سے چھوٹا۔۔۔ ساری محنت اکارت۔۔۔


کسی بنی بنائی مشین میں فٹ ہونے والا ایک کارآمد پرزہ بننے کے لیے انسان۔۔۔ کو، انسان سے مشین کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ ایک پرزے جیسا انسان۔ ذرا سا زنگ لگ جائے تو بیکار۔۔۔ اٹھاؤ پھینکو۔۔۔ پرزوں کی کمی ہے کیا۔۔۔ ایک ڈالر کی تھیلی میں 100 کیلیں ملتی ہیں۔ سب ایک جیسی، ایک سائز۔۔۔ ایک میٹریل کی۔۔۔ جسے صبح دفتروں کو جاتی ہوئی ستے چہروں والی بسوں اور ٹرینوں میں لدی مخلوق۔۔۔ اپنے تئیں خود کو اہم سمجھتے ہیں تا کہ زندگی جینے کا جواز رہے۔ سب پرزے بہت ضروری۔ بہت اہم۔۔۔ مگر اتنے ہی غیر ضروری اتنے ہی غیراہم۔۔۔ ایک منٹ میں ایک مشین کے ایک خانے میں ہر سائز اور تعداد میں بنتے اور ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ فاضل پرزہ ہے انسان اس لعنتی کیپٹلسٹ سماج میں۔


Totally replaceable.


ایسی ہی بوجھل اور غیر زمینی سی کیفیت میں سارہ نے چائے کا پانی تیار کیا۔


بچی کا بیگ، نیپکن وغیرہ رکھ کر رات کو ہی تیار کر دیا تھا۔ دود ھ کی تازہ بوتلیں تیار کرکے رکھیں۔


اجالا ہونے میں دیر تھی مگر سورج نے آج صرف چند لمحوں کے لیے ہی دیدار کروانا تھا۔ کل ہی سیل فون پر موسم کا احوال اور درجہ حرارت چیک کر کے پرس میں چھتری رکھ لی تھی۔ اپنے لنچ کے لیے ایک کیلا اور سیب اٹھائے۔۔۔ سارا دن کی تھکان اور بوریت کے باوجود لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ کو قائم رکھنے کے لیے چپے چپے پر کافی ہاؤسز بنے تھے جہاں لائن میں لگے، بھیڑ چال کے شکار، مشینوں کو تیز تیز۔۔۔ مستقل بنیادوں پرچلانے کے لیے چاق و چوبند پرزے کافی پر کافی کے مگ چڑھائے جاتے تھے۔


گھرسے باہر نکلتے وقت سارہ کے ذہن میں ایک ہی خیال تھا ’’ڈیوڈ۔۔۔‘‘


آج اس کا شدت سے دل چاہا کسی ہمراز سے دل کی باتیں کرے۔ یوں تو آفس میں کئی لوگ تھے مگر رابطوں کی نوعیت کاروباری اور مشینی تعلقات سے آگے نہ بڑھ پائی۔ نارتھ امریکہ کا مسئلہ تنہائی ہے۔ ہر رشتے کے ہوتے ہوئے تنہائی۔ نئے رشتوں کی تلاش میں پرانے رشتوں کو بھولنے کا مسئلہ، ہر رشتہ ایک غیر متوقع رشتے اور تعلق کامنتظر، اجنبی اور کھویا کھویا سا ہوتا ہے۔ اور ہر نئے تعلق کے ملنے کے بعد۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ کچھ غلط ہو گیا۔ بروکن اور Disfunctional families کاایک وسیع و عریض جہاں۔۔۔ قربانی، ایثار، مروت، لحاظ برداشت۔۔۔ جیسے الفاظ سے تہی ڈکشنری کے مالک۔


میٹریل ازم کے کھاتے کھولے کردار۔۔۔ اوپر سے بنے ٹھنے، ڈیزائینر انڈسٹریوں کے چلتے پھرتے اشتہار، اندر سے زخموں سے چور۔۔۔ کراہتی۔۔۔ خراش زدہ روحوں کے مالک۔


کارلا کی چوتھی سالگرہ میں صرف تین ماہ کم تھے۔ گیارہ ستمبر کو کارلا پیدا ہوئی تھی۔ کیسی شدید سردی تھی اس رات۔۔۔ وہ کپکپاتی ہوئی، دہشت زدہ سی حالت میں، لاوارثوں کی طرح ہسپتال پہنچی تھی۔ مس اور مسز کے سوال کے جواب میں اس کی زبان لڑکھڑا گئی تھی۔


مسز، اس نے جواب دیا۔ تو پھر شوہر کی غیر موجودگی سوالیہ جملے میں تبدیل ہوگئی۔


تنہائی، اجنبیت، متوقع اور غیر متوقع ان دیکھی اذیت نے چاروں اور جال سا بن رکھا تھا اور یہ جال جسم و جان سے لپٹا رہا۔۔۔ درد زہ نے اس کی تکلیف دوچند کر دی۔۔۔ آن ڈیوٹی نرس نہ معلوم کن کن مراحل پر ذہنی، جسمانی، جنسی یا شاید روحانی اذیت سے گزری تھی جو آج اس کے پرانے بدلے چکانے کا دن تھا۔ گو غلط شخص سے بدلے چکا رہی تھی مگر شاید تسکین مل رہی تھی۔


بے رحمانہ انداز سے ٹانگیں کھولو۔۔۔ زور لگاؤ۔۔۔ کیا کوئی انوکھا کام کررہی ہو، جیسے بدلحاظ جملوں نے سارہ کو نڈھال کردیا، پہلے سارہ چیخی۔۔۔ اور پھر ہونٹوں کو دانتوں تلے دباکر۔۔۔ آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرنے لگی۔


ہوش آیا تو خالی پن اورپیاس کے احساسات نے وجود کو تڑپا دیا۔


معلوم ہے بیٹی کاوزن ڈیڑھ پاؤنڈ ہے۔ اتنا بڑا پیٹ۔۔۔ اتناکم وزن۔۔۔ آخروقت تک ڈاکٹرز یقین دلاتی رہی کہ سب کچھ ٹھیک نارمل ہے۔


شاید حد سے بڑھتا ہوا فشار خون یا اینٹی ڈپریشن کی دوائیں وجہ ہوں مگر کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ چوتھے دن سارہ گھر آگئی مگر تین ماہ تک بچی وینٹی لیٹر اور آکسیجن ٹینٹ میں زندگی اور موت کے درمیان والی رسی پر جھولتی رہی۔ ضد، خوف یا امید کے نتیجے میں جنم لینے والی بچی، کارلا۔۔۔ سارہ نے یہی نام سوچا تھا اپنی بیٹی کے لیے۔ جو اس کی دادی کا نام تھا۔


وجہ صرف ایک تھی کہ خاندان کی باقی سب عورتوں میں، اس نے صرف بدکلامی، بدمزاجی اور درشتگی دیکھی تھی۔ دادی کے پاس شفقت اور محبت تھی۔ تھوڑا احساس تھا۔ ابا سارا دن چرس کے پف بنا بنا کر انہیں اڑاتا رہتاجب بھی کمرے سے نکلتا اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند سرخ ہوتیں۔ شاید اس کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی بیوی کتنی بار حاملہ ہوئی، کتنے بچے ضائع ہوئے یا پیدا۔۔۔ پورا خاندان گورنمنٹ کی دی ہوئی امداد پہ زندہ تھا، جسے لکھے نصیب کی طرح قبول کیا ہوا تھا۔ ماں کا کام گالیاں بکنا تھا۔ بڑی بہنوں کو جیسے ہی جسمانی تبدیلیوں اور ان سے متعلق و منسلک کاروباری معاملات کااحساس ہوا ان کے سکڑتے بلاؤز اور پھیلتے میک اپ انہیں گھر سے دور کرنے لگے۔ بھائی سارا سارا دن باہر گزارتے۔ رات کو کسی لمحے کھلے دروازے سے آکر بیڈ پر گر جاتے۔ شروع شروع میں ماں نے سختی کی، پھر چیخ و پکار اور پھر وہ عادی ہوگئی۔۔۔ ہر ایک کی صبح اپنے اپنے وقت پر طلوع ہوتی۔۔۔ سارہ کی بظاہر، ماردھاڑ سے بھرپور شخصیت۔۔۔ اندر سے کسی خوفزدہ کبوتر کی مانند تھی۔ اور دادی کے پاس آکر وہ خوفزدہ کبوتر آنکھیں بند کر سکتا تھا۔ سارہ کبوتری بنی۔۔۔ جتنی دیر چاہتی دادی کے پاس رہ سکتی تھی۔۔۔ دادی کسی کو اسے چیڑنے پھاڑنے کو اجازت نہیں دے سکتی ہے۔


کفن میں لیٹنے سے پہلے دادی نے اپنے گلے میں لٹکے موتیوں میں جڑے صلیب کو اپنے جھریوں زدہ، ٹوٹے ناخنوں والے کرخت ہاتھوں سے سارہ کے گلے میں ڈال دیا۔ دادی کی موت سے سارا شہر بے گانہ ہوگیا۔ بے گانگی حد سے بڑھی تو اس نے اپنے سارے کپڑے ایک سوٹ کیس میں ڈالے اور ٹورنٹو چلی آئی۔ مشینوں اورعمارتوں کی حکمرانی والے شہر میں۔۔۔ چلتے پھرتے روبوٹوں، نائٹ کلبوں اور ان گنت خودکشیوں کے شہر میں۔۔۔ بے گھروں اور نشے کی پناہ میں سڑکوں کے کنارے ہپیوں کے شہر میں، خود کو کھونے کے لیے وہ بھی آن اتری تھی۔ ان گنت صفروں میں ایک اور صفر۔۔۔


بارہ بجنے والے تھے۔ آج آفس میں خلاف توقع رش کم تھا۔ فون آرہے تھے۔ ہولڈ کرواتی۔۔۔ پھر مطلوبہ نمبر پر ٹرانسفر کروا دیتی۔۔۔


جانے کیوں آج ماضی کے دیار میں جینے کا جی چاہ رہا تھا سارہ کا۔


گہرے زرد اور گلابی رنگوں کے پھولوں والا بغیر آستین کابلاؤز اور پلین براؤن سکرٹ پہنے وہ اکیلی تنہا بنچ پر بیٹھی تھی، سامنے لیک شور کا حسین منظر تھا اور پاؤں تلے نرم سبزہ۔ بڑھتی ہوئی خنکی اور ڈھلتی شام ماحول کو مزید پراسرار کررہے تھے۔


Can I sit here?


کے سوال نے اسے چونکا دیا تھا۔ وہ ایک لمبے گھنے سے بالوں والا نوجوان تھا جس کی کولہوں تک اترتی پینٹس کی دونوں جیبوں میں ٹھنسی ہوئی چیزیں واضح نظر آرہی تھیں۔


Ok


سارہ نے کسی جو ش کا مظاہر ہ کئے بغیر کہا۔


اگلا سوال متوقع تھا۔۔۔ ہر نوجوان۔۔۔ جوان، ادھیڑ عمر مرد۔۔ کا سوال۔۔


Are you single


جواب میں یس یا نو کہنے کے بجائے سارہ نے پوچھا۔


Why?


رسپانس میں تاخیر ہوئی تو سارہ نے ترچھی نظروں سے اس کے چہرے کودیکھا۔ وہاں بھی ایک ترچھی نظر اسے تک رہی تھی۔ نظریں ملیں تو دونوں بے ساختہ مسکرا دئیے۔ پھر ساتھ ہی دونوں کا قہقہہ بلند ہوا۔ نہ مسکرانے کا کوئی مطلب تھا۔۔ نہ قہقہہ کا۔۔۔ مگر اچھا لگا۔۔۔ شام اچانک ہی ترنگ میں آگئی تھی، جیسے ماحول کے پیمانے سے ارغوانی مشروب چھلک جائے۔


کافی۔۔۔ دوسرا یک طرفہ سوال۔


Why?


سارہ نے پھر یک حرفی جواب دیا مگر اس بار انداز میں شوخی تھی، جس کاجواب ایک بھرپور مردانہ قہقہہ تھا۔


تارے رات کی خبر لائے ایک ایک کر کے آسمان پر حاضری لگانے لگے اور ہواؤں میں چھپا برفیلا چورا جلد کو چھیلنے لگا تو دونوں ساتھ ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سارہ نے اپنا کوٹ اٹھایا اور اس نے اپنا۔


کیلیفورنیا کی خاک چھانتا پہنچا تھا یہاں۔ رزق کی تلاش میں تھا۔ ماں زندہ تھی مگر اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ گرل فرینڈز کی تعداد یاد نہیں تھی۔ پہلا پولیس کیس 13 سال کی عمر میں بتا رہا تھا۔۔۔ سبب ایفریقن ہونا کہتاتھا۔ رات کے 12بجے سارہ نے وہاں سے جانے کیلیے آخری بس پکڑی تو ڈیوڈ کو رات گزارنے کے لیے اپنی منزل کا پتہ نہ تھا۔ بس کا انتظار کرتے ہوئے سارہ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی۔۔۔ خدا کرے۔۔۔ آخری بس گزر گئی ہو۔۔۔ اور۔۔۔ یہ رات مزید گہری۔۔۔ مزید ٹھنڈی اور پراسرار ہو جائے۔۔۔ مگر عین اس وقت بس سامنے تھی۔


بس ڈرائیور کو ٹکٹ دکھا کر، سارہ نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ بس کے دروازے بند ہوگئے۔ ہائے۔۔۔ کمبخت روک ہی لیتا۔۔۔ اس کی ایک ہی جھلک نظر آئی۔۔۔ اداسی کے سمندر میں ڈبو دینے جیسی جھلک۔۔۔ اور بے کراں تاریکی۔ مصنوعی رنگوں کی روشنیوں میں بھی زندہ۔۔۔ تاریکی کی طاقت ور جادوگرنی۔ اتنی دیر میں ایک دوسرے کے فون نمبرز بھی ایکسچینج نہیں کر پائے تھے، بس برین ٹیزر ٹائپ، چھوٹے چھوٹے سوالوں سے ایک دوسرے کو زخماتے اور کریدتے رہے۔


کوئی ایک ماہ گزرا، جب سارہ ایک بس سے اتر کر دوسری بس کا نتظار کررہی تھی۔ بس سے اترتے ہی سارہ نے بس سٹاپ سے ذرا دور ہو کر سگریٹ سلگا لیا تھا۔


ہیلو۔۔ سامنے سے آتے ہوئے ڈیوڈ نے پورے دانت دکھاتے ہوئے کہا۔


خوشگوار حیرت کی ایک موج نے گویا سارہ کے پورے جسم کو اسیر کر لیا۔


تقریباً اسی حلیے میں۔۔۔ مگر مانوسیت کے رنگ لیے ڈیوڈ سامنے آکھڑا ہوا۔ دونوں نے ہائی فائف سے اس خوشگوار ملاقات کاخیر مقدم کیا۔ زمانوں بعد کسی نے سارہ کے لیے مفن لیے اورکافی خریدی۔ خاندان کا ذکر آنے پر خود کو قدرت کا بیٹا کہنے لگا۔ ٹیبل پر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرخود کو ٹٹولتے، ڈھونڈتے رہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ دیر تک وقت گزارا، ہنسے بھی، اداس بھی ہوئے۔ سارہ ماضی میں زندہ تھی، وہ حال میں۔ مگر دونوں ہی مستقبل کی کسی امکانی رہ گزر کی تلاش میں تھے جہاں زندگی اپنی معنویت کے ساتھ زندہ ہو۔ اس ملاقات میں دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ فون نمبر ایکسچینج کئے، دونوں کے شانے ایک دوسرے کے ساتھ دیر تک جڑے رہے۔ جدا ہوتے ہوئے، بلا ارادہ کچھ دیر کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ایک دوسرے کی سانسیں محسوس کرتے رہے اور تیسر ی ملاقات میں بغیر کچھ کہے سنے دونوں نے شادی کا وقت طے کر لیا۔


چرچ کے انتظامات کے لیے دونوں نے اپنے اثاثے دیکھے۔ انگوٹھیوں کی قیمتیں چیک کیں۔ دلہن اور دلہا کے لیے کرائے پر دستیاب لباس ایک دوسرے کیلئے پسند کئے۔ کڑی شرائط پر دو دن کے لیے اچھے خاصے کرائے کی گاڑی کے کاغذ پر سائن کئے۔ ٹوٹل 13 مہمان، 8سارہ کی طرف سے۔۔۔ پانچ ڈیوڈ کے، تین مرد اور ایک جوڑا۔۔ شیمپئن۔۔۔ کھانا۔ دونوں کے بنک اکاؤنٹ خالی ہو چکے تھے مگر دل جام محبت سے لبریز۔


کیسا اچھا فیصلہ تھا ہمارا۔ سارہ نے لنچ بریک میں اپنا لنچ باکس کھولتے ہوئے سوچا۔ یوں لگتا تھا کہ گویا ڈیوڈ آسمان سے ٹپکاہے۔ تنہا۔۔۔ کبھی فیملی کا ذکر کیا نہ سننے کے موڈ میں آیا۔


آہستہ آہستہ ڈیوڈ کی آنکھوں کی اداسیاں بھی کم ہورہی تھیں اورسارہ کا فلیٹ بھی گھر گھرسالگنے لگا تھا۔ وہ ڈیلی ویجز پرکام کرتا تھا جب کہ سارہ ایک فرم میں ریسپشنسٹ تھی۔ دونوں کی تنخواہ کرائے کا گھرچلانے کے قابل تھی، مگر بغیرکسی ارادے کے دونوں میں یوں جدائی آئی کہ دونوں حیرت زدہ رہ گئے۔


مجھے بچہ نہیں چاہیے۔ یہ ڈیوڈ کی ضد تھی۔ سارہ کی ضد یہ نہیں تھی کہ اسے بچہ چاہیے بلکہ اس کا غصہ تھاکہ کیوں نہیں چاہیے؟


ڈیوڈ تھوڑے بہت لفظوں کے ہیر پھیر سے یہی جملے بولتاکہ۔۔۔ اس نے آج تک کوئی رول ماڈل تک نہیں دیکھا۔ اور یہ کہ اسے باپ کے تصور سے ہی نفرت آتی تھی۔ ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ اسے ہراس بچے سے ہمدردی ہے جو اس دنیا میں وارد نہیں ہوا۔ اوراگربچہ لازمی چاہیے توگود لے لیتے ہیں۔ فوسٹرنگ۔۔۔ پیرنٹنگ سے بہتر ہے۔ کیا فرق ہوگا۔۔۔ گود لیا بچہ ہماری اپنی پیدا کردہ اولاد سے کمتر ہوگا کیا۔ وہ بھی دو انسانوں کا پیداکیاہوا بچہ ہوگا اورآخر میرے اور تمہارے بچے کے پیدا ہونے سے دنیا پر کیا اثر پڑ سکتا ہے سوائے اس کے کہ ہم ایک نئے بچے کو دنیا میں لانے کے گناہ کے مرتکب نہیں ہوں گے۔


روزروز کی جھک جھک نے دونوں کے درمیان خواہ مخواہ کی انا کی دیوارکھڑی کر دی۔ ڈیوڈ کا رویہ سمجھانے والا ہوتا اور سارہ کا جارحانہ۔۔۔ ایک ویک اینڈ پر دونوں نے۔۔ اس مسئلے کے فائنل حل کے لیے۔۔۔ کہیں باہر بیٹھ کر گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔ سارہ اپنے فیصلے پر اٹل تھی۔۔۔ ڈیوڈ ہمیشہ کی طرح دلائل دے رہا تھا جسے سارہ اپنی ضد سے رد کیے جارہی تھی۔


آخر کیاکروگی بچوں کے ساتھ۔۔۔؟؟ صبح سے شام تک ہم دونوں نوکری کرتے ہیں۔۔۔ کبھی اسے نرسری تو کبھی ڈے کئیرمیں بھیجو گی۔۔۔ پھر اسکولوں کا بے رحم ماحول۔۔۔ ایوننگ کلبس کے نام پر ایک اور استحصال۔۔۔ میں گزرا ہوں اس استحصالی نظام سے۔۔ میں آنے والے لاتعداد بچوں کو تو نہیں روک سکتا مگر۔۔۔ میں ہوش وحواس میں ہوتے ہوئے کسی بھی انجان و معصوم روح کو ایک بے بس انسان کی طرح دنیا میں نہیں پھینک سکتا۔ زندگی سے کھلواڑ سفاکی ہے، محض اپنی معمولی خواہش کی تکمیل کے لیے کیوں ایک نئی زندگی کو اس بے رحم دنیا کے رحم و کرم پر پھینکا جائے۔ ڈیوڈ کا فلسفہ بالکل واضح تھا اور وہ اپنے فیصلے میں کسی لچک کاروادار نہ تھا۔


اس کھلم کھلا انکار پر سارہ کو غصہ تو بہت آیا مگر اس کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ اس پوائنٹ پرڈیوڈ سے اختلاف تھا، شدید اختلاف، مگر اس کے اپنے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ آخر وہ بچے کیو ں چاہتی تھی؟ اسکے پاس بچے کو دینے کے لیے آخر کیا نیا یا انوکھا تھا؟ لے دے کے اس کے پاس ایک ہی جواز تھا کہ یہ اس کے عورت پنے کی تکمیل ہے، جسے ڈیوڈ دراصل سارہ کی انا کی تسکین سمجھے بیٹھا تھا۔


سارہ کے لیے اپنی خواہش اور ضد سے دستبردار ہوناممکن نہ تھا۔ اس بچے کی خواہش حسرت میں بدلتی دکھائی دی تو اس نے زندگی سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے، ڈیوڈ کوکھری کھری سنانی شروع کر دیں۔ سارہ نے اسے خودغرض، جسمانی لذت کااسیر، غیر ذمہ دار اورفراریت پسند گردانا۔۔ اوردونوں کے تعلق کو محض سستے جذبات اوروقت گزاری کاذریعہ کہا۔


یہ غلط ہے۔ تم میری سول میٹ ہو۔۔۔ ڈیوڈ کی آنکھوں میں نمی آگئی۔


کاش میں تمہیں۔۔۔ میرا بچپن دکھا سکتا۔۔۔ وہ ذلتیں، جھڑکیاں اور درد دکھا سکتا جنہوں نے میرا بچپن، میرے لیے ایک نہ ختم ہونے والا نائٹ میئر بنا دیا۔ مجھے ماں کے نام پرایک غصہ ور، گالیاں بکتی، ساری دنیا سے لڑتی خوفناک عورت نظرآتی ہے۔ اورباپ کی جگہ ڈراؤنے سائے۔۔۔ ہر جگہ میرا تعاقب کرتے سائے۔ مجھے پیٹتے۔۔ دھکے مارتے۔۔۔۔ مجھے گرا کر روند کر، میرے اوپر سے گزر جانے والے سائے۔۔۔ یہ نائٹ میئر اس وقت ختم ہوا جب تم میری زندگی میں آئیں اور تم نے مجھے قبول کیا۔۔۔ ایسے جیسا میں ہوں۔۔۔ کبھی مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔ کبھی میرا بچپن کرید کر مجھے ننگا نہیں کیا۔ تم میری پناہ گاہ ہو۔۔۔ میں نے خود کو تمہیں سونپ دیا اب جو چاہے۔۔۔ میرے ساتھ سلوک کرو۔ مگر میں کیا کروں۔۔۔ میں خود پرجبر کرکے بھی کسی انسان کو جنم دینے میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔


وہ پہلی رات تھی جب دونوں اجنبیوں کی طرح ایک چھت تلے سوئے۔ اجنبیوں کی طرح اٹھے۔ کرایہ داروں کی طرح باتھ روم اورکچن استعمال کیا۔ اور اس سے پہلے کہ محبت پھر دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی۔۔۔ سارہ نے اپنی شرٹس اور نیلی کالی جینزاپنے سوٹ کیس میں بے دردی سے ٹھونستے ہوئے گھرچھوڑنے کا اعلان کیا۔


اداس ڈیوڈ نے۔۔۔ آہستگی سے بیگ کی زپ کھولی۔ پہلے سارہ کے کپڑے نکال کر صوفے پر رکھے، پھر احتیاط سے تمام خانے کھولے اور اس کی ضروری چیزیں نکال کر بیگ خالی کیا، جب تک سارہ باتھ روم سے نکلی۔۔۔ ڈیوڈ اس کے سوٹ کیس میں اپنے کپڑے پیک کر کے جاچکا تھا۔ صوفے پہ رکھے سارہ کے کپڑوں پر دھرے سفید کاغذ پہ تحریر تھا۔


یہ تمہارا گھر ہے۔ تمہیں نہیں بلکہ مجھے گھر چھوڑ دینا چاہیے۔ یاد رکھنا میں گھر چھوڑ رہا ہوں، تمہیں نہیں، صرف تمہارا ڈیوڈ۔


تحریر پڑھتے ہی۔۔۔ سارہ کا وجود کسی کمزور پرندے کی طرح اڑان کازور بھول گیا۔ اسے ایسے لگا جیسا کہ اچانک اسکے سر سے آسمان کھسک گیاہو اور وہ کسی بلیک ہول کی اور کھنچی چلی جارہی ہو۔ دل میں خیال آیا۔ کتنی دور گیا ہوگا۔ جاؤں اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال کراسے واپس لے آؤں۔۔ یا پھرفون کروں اور واپس آنے کے لیے کہوں۔۔۔


فیصلہ بدبخت ایسے ہی وقت نہیں ہو پاتاجب اسکی سخت ضرورت ہو۔ نہ قدم اٹھے نہ بانہیں مہربان ہوئیں۔ فون دھرے کا دھرا رہ گیا۔ اور یوں وقت کی زنجیر۔۔۔ گھنٹوں سے دنوں، پھر ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں بدل گئی۔۔۔ اور پھرجب بھی انا کی گرفت ڈھیلی ہوئی سارہ نے بارہا فون کیا۔ ڈیوڈ نے اپنانمبر تبدیل کر لیاتھا۔۔۔ رابطہ خواب ہو گیا تھا۔


وقت بادشاہ ہے۔ جیسے زوال نہیں۔ وہ اپنے پیادوں کی آہ و بکا کہاں سنتا ہے۔۔۔ ہر رکاوٹ روندنا اور بڑھتے چلے جانا اس کا شیوہ ہے۔۔۔ پیادے۔۔۔ شکوہ شکایت کرتے، گرتے پڑتے، پھر مقدروں کوکوستے، زندگی بسر کرنے لگ جاتے۔ یہی حال سارہ کا تھا۔ اسے یقین تھا کہ ایک دن ڈیوڈ پلٹ آئے گا۔ لیکن گزرتے دنوں اور سالوں نے رابطے کاکوئی سلسلہ بنا کرنہ دیا۔ کولیگس کی تلخ و ترش باتوں سے دلبرداشتہ کئی بارنوکری تبدیل کرنے کا سوچا مگر ہر جگہ ایک ہی نوعیت کا جال بچھا دیکھ کر کوئی غیر ضروری فیصلہ کرنے سے خود کو باز رکھا۔


ایسا نہیں تھا کہ ڈیوڈ کے علاوہ دنیا میں کوئی مرد نہیں تھا۔ ساتھ کام کرنے والے کولیگز سے لے کرجان پہچان والوں نے حسب استطاعت اس کی تنہائی بانٹنے کی استدعا اپنے اپنے طریقے سے کی مگر کسی نئے چونچلے کوبرداشت کرنے کی ہمت نہ پاکر، سارہ کا مکمل دھیان ڈیوڈ اور اس کے ساتھ بتائے خوبصورت دنوں کی طرف مبذول رہتا۔ ہرروزکسی نہ کسی آہٹ پر اس کا دل اچانک یوں دھڑک اٹھتا کہ شاید یہ چاپ، یہ آہٹ یہ دستک ڈیوڈ کی ہو۔ کوئی ایک سال وہ اسی مخمصے کا شکاررہی کہ آج۔۔۔ ابھی۔۔۔ کل، یا شام کو اچانک دروازے پر ڈیوڈ کھڑا ہو گا، مگر پھر یہ خیال تبدیل ہوگئے تھے۔ کبھی سوچتی۔۔۔ واپس سٹیٹ چلا گیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کسی پرانی گرل فرینڈ سے شادی کرلی ہو۔ یا پھر کوئی نیا تعلق بنا لیا ہو۔ دل فگار دلوں پر دستک دینا بہت آسان ہوتا ہے۔ ایسے ہی لمحوں میں رشتے آسانی سے بن جاتے ہیں۔ مگران تمام وسوسوں کے باوجود وہ خود کو ڈیوڈ کے علاوہ کسی مرد کے ساتھ جوڑنے کے لیے تیار نہ تھی۔


تنہائی اور اداسی بے کراں ہوئی تو اس نے فرٹیلٹی کلینکس سے رابطہ کرنا شروع کیا اور بالآخر ایک اچھے سپرم بنک سے رابطہ ہو گیا۔ معمول ٹیسٹس اور مختلف ادویات کے کورسز کروانے کے بعد سپرم بنک نے ایک صحت مند ڈونر کے سپرمز ملتے ہی اس سے رابطہ کیا۔ ڈونر کی نسل اور رنگت کے متعلق سارہ نے اپنے سوالنامے کے جواب میں واضح طور پرلکھاتھا کہ اسے اس سے غرض نہیں۔ عام طور پر سپرم بنکس انتظار کے لیے دو سے تین سال کا وقت لیتے ہیں۔ مگر سارہ کے کیس میں محض سات ماہ میں ڈونر کا بندوبست ہوگیا تھا۔


عام دنوں کی مصروف زندگی میں تنہائی کا آسیب یوں نہیں لپٹتا تھا، جیسا کہ اس دن اس پر سوار ہوا جب وہ فرٹیلٹی کلینک میں سپرم انسرٹ کروانے پہنچی۔ نرس نے کہاتھا کہ ایک صحت مند سپرم ہی کافی ہوگا پریگنینسی کے لیے مگر 37 سال کی عمر میں وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی لہذا اس نے تینوں سپرم انسرٹ کرنے کے لیے کہا۔


حمل ٹھہرتے ہی وہ ایک اجنبی اور انجان سی خوشی سے توہمکنار ہوئی۔ مگر جوں جوں ہفتے بڑھے، اس کی تشویش اور سوچوں میں تغیر بھی بڑھتا گیا۔ بچے کے امکانی اخراجات کے پیش نظر اس نے سبسڈائزڈ ہاؤس کے لیے کافی عرصہ پہلے درخواست دے دی تھی، جو پریگنینسی کے چھٹے مہینے میں منظور ہو گئی تھی اور وہ نہ چاہنے کے باوجود بھی اس چھوٹے مگر صاف ستھرے فلیٹ سے نکل کر اس گھر میں چلی گئی جہاں وہ کم از کم چارسے پانچ سو ڈالر ماہانہ بچا سکتی تھی جس سے آنے والے بچے کی ڈے کئیر کے علاوہ دیگر خرچے بھی پورے ہو سکتے تھے، بغیر کسی پارٹنر کے تنہا زندگی گزارتے ہوئے اس کی پریگننسی کی خبر نے اس آفس میں جہاں وہ کام کررہی تھی، چونکا یا ضرور، مگر معاملہ صرف مبارکباد دینے کی حد تک محدود رہا۔


پریگننسی کے دوران سارہ نے گھر کو ڈیکوریٹ کیا۔ پھول اور پرندے دیواروں پر چسپاں کیے۔ بچے کے لیے رنگ برنگے کھلونے اور کپڑے لیے۔۔ جان بوجھ کربچے کی جنس کے بارے میں ڈاکٹر سے کچھ نہ پوچھا بلکہ اسے بھی بتانے سے منع کر دیا۔ اسے خوشی تھی کہ اب وہ کبھی تنہا نہیں ہوگی۔ زمین پراب اس کاایک سہارا ہوگا مگر موجودہ تنہائی اورڈیوڈ کے تصور نے اس کے اندر ایک مستقل اداسی پھیلائے رکھی۔ رہ رہ کر اس کوڈیوڈ کاخیال آتا اگر وہ اس کو آتے جاتے کہیں پریگننٹ دیکھ لے گا تو کیا سمجھے گا؟ پھرخیال آتا۔۔ کیا وہ ایسا سوچ بھی سکتا ہے؟


لیکن اتنے جدید ترین رابطوں کے طریقوں کے باوجود اس کا رابطہ نہ کرنا بھلا کیا پیغام دیتا ہے یہی نہ کہ وہ مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا ہے، کبھی واپس نہ آنے کے لیے اور مجھ سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہتا حالانکہ میرا فون نمبر بھی وہی جو اس کے فون میں محفوظ تھا۔


سارہ کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھاکہ وہ خود کو سنگل سمجھے یا نہیں۔۔۔ لائف پارٹنر، کامن پارٹنر کی اصطلاحیں بہت قابل قبول ہیں، مسزکے لاحقے سے الگ، مگر جس شخص کو یہ درجہ دیا جائے اس کا اتا پتہ ہونا تو ضروری ہے۔ یہ پزل کرنے والا سوال تھا۔ کسی انجانے خوف کے باوجود امید کی کرنیں خود کو فروزاں رکھتیں، کبھی روتی کبھی ہنستی۔۔۔ مگر بار بار آنے والے بچے کے لیے اپنے آپ کو ایک اچھی رول ماڈل ماں ثابت کرنے کا خود سے عہد کرتی۔


پریگنینسی اور ڈلیوری سے لے کر کارلا کے اولین دنوں کی بیمار جیسے آزمائشی لمحوں میں اسے ایک ساتھی کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، کوئی سہارا ہوتا۔ بازو تھامنے والا۔۔۔ اس کا بوجھ ہلکا کرنے والا۔۔ کسی کو اس کی تھکن کا احساس ہوتا۔۔۔ پہلی بار کارلا کو دیکھ کر۔۔ اس کی مندھی مندھی آنکھوں اور نہایت کومل وجود کو محسوس کرتے ہوئے وہ گھبرا سی گئی کہ خوشی کا اظہار کیسے کرے اور کیسے اپنے جذبات کوبیان کرے۔ کس سے کہے اور کون سنے گا۔ تنہائی اور اکیلے پن کا اتنا خوفناک ادراک اسے پہلی بار ہوا تھا۔ کاش ماں قریب ہوتی۔۔ ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا۔۔۔ مگر ماں کا خیال آتے ہی اسے دہشت اور نفرت نے آن لیا۔ دل چاہا قصے کہانیوں کی ماں جیسی ہوتی، ایسی نہیں جیسی کہ اس کی ماں تھی۔ ایک زمانہ وہ ماں سے دور رہنے کے باوجود اپنے دل میں اپنی ماں کے لیے گنجائش نہ نکال سکی تھی، چند ایک بار اس نے سوچا تھا کہ وہ ایک خط لکھ کر ماں کو اپنے جذبات سے آگاہ کرے کہ اس نے اسے کیوں کر چھوڑ دیا اور کیوں زندگی کی اتنی بے معنویت، اجنبیت اور تنہائی کے باوجود اسے ماں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی ماں کچھ ایسا کہے کہ وہ محسوس کرسکے کہ کوئی اسے اپنا سمجھتا ہے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ والدین سے ناراض رہنے والی اولاد ان کے مرنے پہ پھوٹ پھوٹ کرروتی ہے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے ان کی ایک ہی التجا ہوتی ہے کہ کسی طرح وقت مہربان ہو اور وہ اپنے والدین کے ہاتھ تھام کر صرف ایک جملہ کہہ دیں، آئی لو یو۔


وہ جملہ جو وہ برسوں سے اپنی انا کے بھاری پتھر تلے کچلے بیٹھے رہتے ہیں، مگر یہ سب سنی سنائی کہانیاں تھیں۔ سارہ نے اپنے چاروں اطراف کی بے گانہ دنیا دیکھتے ہوئے سوچا کہ اگر اس وقت کوئی خط، کو ئی کال آجائے یا کوئی شناسا مل جائے جو اسے اس کے والدین کی موت کی خبر سنائے تو اس کا رد عمل کیا ہوگا؟


کچھ بھی نہیں۔۔۔ شاید کچھ بھی نہیں۔۔۔ شاید اتنا بھی نہیں جتنا اس دن کریڈٹ کارڈ کھو جانے پہ ہوا تھا۔ شاید خونی رشتے مجبوری کے رشتے ہوتے ہیں جن سے منسلک رہنا معاشرتی مجبوری بنا دیا گیا ہے مگر ان کی حیثیت بائیلاجیکل رشتوں سے زیادہ نہیں ہے۔ جتنا ہر شخص کاانفرادی فعل ہے اور وہ خود ہی اپنے قول و عمل کے کٹہرے میں جرح سن سن کر صفائیاں دیتا ہے، جبکہ ان خون کے رشتوں کی گواہیاں بھی عام طور پر مخالف پلڑے میں ہی اپنا وزن ڈالتی ہیں۔


قبل اس کے کہ تنہائی اور آزمائشیں اسے توڑ ڈالتیں، کارلا نے اسے زندگی جینے کا جواز مہیاکر دیا تھا۔ کارلا کی آنکھیں گفتگو کرتی تھیں۔۔۔ ا سکے بال گھونگریالے تھے اور اس کی مسکراہٹ میں زندگی کا حسن۔۔۔ سارہ نے کارلا کی ذات کے گرد اپنے وجود کا تانا بانا بن لیاتھا اور یوں خود کو مقصدیت کے ساتھ گزار رہی تھی۔ کارلااس کے وجود کا اٹوٹ انگ۔۔۔ اس کا حال اور مستقبل تھی۔ ایک ایسا وجود جس نے اس کے وجود سے جنم لیا تھا اور جس کو پانے کے لیے اس نے بہت بڑی قربانی دی تھی۔


ڈیوڈ کو کھو دیا تھا۔۔۔ ہمیشہ کے لیے، شاید۔


اس سارے سفر میں پارٹیز اور محفلوں میں ساتھ ڈرنک اور ڈانس کرنے والے دوست بھی سارہ کے طرز زندگی کو ’’بور‘‘ قراردیتے ہوئے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ لوگ وہی سننا چاہتے ہیں جو وہ پسند کرتے ہیں، اگر انسان اپنے دل کی بات کہتا ہے تو دشمن بنا لیتا ہے یا دوست کھو بیٹھتا ہے۔ کچھ دوست ناصحا بن بیٹھے تو کچھ ڈیوڈ کے بارے میں سارہ کے انتظار کو سولہویں صدی کا ناکام عشق قرار دیتے چلے گئے۔ اس میں بھی سارہ کے لیے یک گونہ اطمینان کا پہلو تھا۔ اسے معلوم تھا کہ بچہ پالنا نہایت جان جوکھوں کا کام ہے۔ خصوصاً وہاں جہاں عورت کو سنگل ماں کا درجہ تو حاصل ہو مگر فل ٹائم ملازمت بھی کرنی ہو۔ نیوکلیئر فیملیز میں انفرادیت کے ساتھ جینا، دور سے جتنا پرکشش نظر آتا ہے، قریب سے اتنا ہی مہنگا سودا ہے۔ لہٰذا کارلا کی پرورش میں کسی کا رول نہ تھا۔ کسی کا احسان نہ تھا۔ اور یہ بات سارہ کے لیے سکون کا باعث تھی کہ وہ اور اس کی کارلا، دنیا میں ایک دوسرے کے لیے بنے تھے۔


ہیلو، ایرین نے میز پر خاصے زور سے ہاتھ مارتے ہوئے سارہ کی آنکھوں میں جھانکا، پانچ بج چکے تھے۔ آفس خالی ہوچکا تھا اور وہ ابھی تک لایعنی سوچوں میں خود کو اور ماحول کو بھلائے بیٹھی تھی۔


Are you ok?


Sorry, have a great weekend.


کہتے ہوئے سارہ نے ایرین کا شکریہ ادا کیا اور کمپیوٹر آف کرتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔


پندرہ سے بیس منٹ میں وہ کارلا کو لیتی ہوئی گھر آگئی۔ ساڑھے پانچ بجنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ ایک زمانے کے بعد اس نے غور سے اپناچہرہ آئینے میں دیکھا۔ اپنے خدوخال میں اداسی اور محنت کے رنگوں کی لکیریں دیکھیں تو آنکھوں میں نمی لیے مسکرا دی۔


گلابی لپ اسٹک اور گلابی ٹاپ میں خود کو دیکھتے ہوئے اسے قدرے اطمینان ہوا۔ یہ گلابی شوخ رنگ ڈیوڈ کا پسندیدہ رنگ تھا۔ ناخن پالش سے انگلیاں سجانے کا وقت نہیں تھا۔ بے بی پنک فراک کارلا کو پہناتے ہوئے وہ کئی بار گنگناتی بھی اور بار بار کارلا کو سینے سے لگاکر اس کے گالوں اور ماتھے پہ بوسے دیئے۔۔۔ وہ اس ایک لمحہ کے انتظار میں تھی، جس نے سالوں بعد آنا تھا۔


پہلے اس نے دروازہ کھلا رکھا تھا، پھر لاک کیا۔۔۔ چند منٹوں بعد دوبارہ کھول دیا۔ ابھی کارلا کو شوز پہنانے ہی تھے کہ دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی، مانوس دستک۔۔۔ سنی سنائی آشنا سی دستک پر کی ہول سے جھانکا تو باوجود اس کے کہ وہ پور پور ڈیوڈ کی منتظر تھی۔ دھک سے رہ گئی۔ لرزتے جسم اور کانپتے ہا تھوں سے دروازہ کھولا۔ رنگ برنگے پھولوں کا گلدستہ اور گفٹ پیک دونوں ہاتھوں سے تھامے سامنے ڈیوڈ کھڑا تھا۔


ہائے ہنی۔۔۔ ڈیوڈ کی مسکراہٹ وہی تھی۔۔۔ بس آنکھیں مزید گہری اور پراسرار ہو گئی تھیں۔


ہائے۔۔ کہتے ہوئے سارہ دروازے کے سامنے سے ہٹ گئی۔


قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔۔۔ کارلا۔۔۔ دونوں کے درمیان تھی۔


Who is he Mom?


Me....


ڈیوڈ گھٹنوں کے بل وہیں بیٹھ گیا۔


First let me know who are you?


ڈیوڈ نے بچوں کے سے سٹائل میں پوچھا۔


I am Called Carla.


نہایت اطمینان اور اعتماد سے کارلا بولی۔


Can we go to the Park?


’’پارک‘‘ کارلا نے ماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔


’’ارے رکو ابھی۔ پہلے کچھ چائے، کافی پیتے ہیں ڈیوڈ۔۔۔‘‘


ہم آتے ہیں۔ میں صرف چائے کے لیے نہیں آیا ہوں۔ ڈیوڈ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ہم گھوم کر آتے ہیں۔ پھر مل کر چائے کافی پئیں گے بلکہ کھانا بھی۔ بھوکا ہوں بہت۔ ڈیوڈ نے اپنا دایاں بازوسارہ کی کمر کے گرد حمائل کیا اور اس کے گلابی ہونٹوں کو چوم لیا۔


You still look like a doll?


ڈیوڈ نے گہری نظروں سے اس کے سراپے کا جائزہ لیا اور ایک دم کارلا کو گود میں اٹھا کر بولا۔


Say bye to mom... we are coming


But who is he Mom.


کارلا نے حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت سے پوچھا۔


This is Mr. David.


’’اوہ مسٹر ڈیوڈ۔۔ نائس ٹو میٹ یو۔۔۔‘‘


کارلا خوشی کی شدت سے بولی۔


یہ چند لمحے۔۔۔ کسی چھوٹے سے فلمی ٹریلر کی طرح چھپاکے سے نظروں کے سامنے سے گزر گئے۔ شدت جذبات اور ناقابل یقین سی کیفیت میں سارہ ڈوبی ہوئی تھی۔ گہرے گہرے سانس لیتی، گلدستے اور پیکٹس میز پر سجا کر بیٹھی تو اچانک انجانے خوف کی ایک لہر اس کے وجود میں سرایت کر گئی۔


تقریباً پانچ سال کے بعد ڈیوڈ آیا تھا اور جس وجہ سے مجھے اور گھر کو چھوڑ کر گیا تھا وہ وجہ نہ صرف اپنی جگہ برقرار ہے بلکہ ایک بچی کی شکل میں موجود ہے۔ کارلا کی تخلیق کے عوامل تو صرف میں ہی جانتی ہوں یا پھر چند ایک دوست۔ باقی سب کچھ ہسپتال کی فائل میں موجود ہے۔۔۔ کیا ڈیوڈ کے لیے۔۔۔ ان سب باتوں پریقین کرنا آسان ہو گا۔ سارہ نے سوچا۔


کتنی آسانی سے اس نے فون پر پوچھا تھا۔


سنا ہے کہ تمہارے پاس ایک پیاری سی بیٹی بھی ہے۔‘‘ سوال تھا یا معلومات کا اظہار۔


ڈیوڈ ہمیشہ ہی نرم خو اور پر محبت رہا تھا۔ غیر ضروری انانیت کا اس کے پاس جواز نہ تھا۔ ماسوائے اپنے ماضی کو کریدنے کے، اسے کوئی دوسری بات پر اذیت محسوس نہ ہوتی تھی۔ مگر بہرحال۔ بچے کا موضوع اس کی دکھتی رگ تھا اور اس نکتے پر دونوں کے درمیان ناراضگی اتنی بڑھی کے ایک فریق کو گھر چھوڑ کر جانا پڑا۔ اورکچھ یوں کہ سالوں تک ایک دوسرے کی خبر تک نہ لی۔ وہ ایک عجیب مخمصے میں پڑ گئی۔


سات بجے۔۔۔ پھر آٹھ۔۔۔ نو بج گئے تھے، سورج مکمل ڈوب گیا تھا۔ وسوسوں اور سوالات نے سارہ کے خوف میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ اسے لگا سب کچھ غلط ہوگیا۔


میں نے کیسے کارلا ڈیوڈ کے حوالے کر دی بغیر کچھ پوچھے، بغیر کچھ کہے سنے۔ ڈیوڈ کچھ نہیں جانتا کارلا کے بارے میں۔ کہتے ہیں مرد کی مردانگی کوسب سے زیادہ طیش اس وقت آتا ہے جب اسے معلوم ہوتاہے اس کے تصرف میں رہنے والی عورت کی وفاداری مشکوک ہے۔ اور میرے پاس تو ایک عدد بچی ہے، جس کے باپ کے بارے میں کوئی کچھ بھی سوچ سکتا ہے۔۔۔ خاص طور پر ڈیوڈ۔ فلمی اور ڈرامائی کہانیوں کے ساتھ ساتھ آئے دن بچوں کے ساتھ ہونے والی دہشتناک کاروائیوں اور زیادتیوں کی اخباری خبروں نے اس کے ذہن کو یرغمال بنا لیا۔


فون ہاتھ میں پکڑ کر اس نے وہی نمبر ڈائل کیا جس سے ڈیوڈ نے اسے کال کی تھی۔ فون کی گھنٹی بجتی رہی۔۔ مگر دوسری طرف سے فون اٹینڈ نہ ہوا۔ ’’ اوہ گاڈ۔‘‘۔۔ سارہ نے سر پکڑ لیا۔


اترتی گہری سیاہ رات اس کے اعصاب کمزور کر رہی تھی کہ اچانک دروازہ کھلا۔۔ اور ہیلو مام کی پرجوش آواز کے ساتھ ہی کارلا کی کلکاری گونجی۔


ہاتھ میں اپنی پسندیدہ آئس کریم کا پیکٹ اٹھائے کارلا۔۔۔ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔


ڈیوڈ کے ہونٹوں پر ایسی پرسکون اور محبت بھری مسکراہٹ سارہ نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ بیٹی کو گلے لگاتے ہوئے۔۔۔ گہرا سکون اور سانس لے کر سارہ نے ڈیوڈ کا ہاتھ تھاما اور بولی۔۔۔ ’’بیٹھو ڈیوڈ۔‘‘


Not David Mom he is Daddy.


کارلا نے قطعیت بھرے انداز میں سارہ کو مخاطب کیا۔