نسوانی لڑائیاں کیسے ہوا کرتی تھیں؟

پہلے گلی محلے میں  لڑائیاں بہت ہوا کرتی تھیں۔ اب تو خیر جس طرح بچپن کے بہت سے کھیل کود غائب ہوگئے ہیں اسی طرح محلے کی یہ نسوانی لڑائیاں بھی تقریبا ختم ہی ہوگئی ہیں۔ ہم نے اپنے لڑکپن میں  محلے کی عورتوں کی لڑائیاں بہت دیکھی ہیں۔ بڑی دلچسپ ہوا کرتی تھیں۔

پہلے ایک ہی کی آواز آتی، وہ خوب چیختی چلاتی۔ جب یکطرفہ گالی گلوچ زیادہ بڑھ جاتی تب مد مقابل والی بھی باہر نکلتی۔ پھر آہستہ آہستہ دونوں طرف کی حمایتی بھی میدان میں آجاتیں۔۔۔ بس پھر کیا۔۔۔ زنانہ عالمی جنگ کا منظر پیش ہورہا ہوتا۔۔۔ خوب اچھل اچھل کر اور ہاتھ اٹھا کر لڑتیں۔۔۔ یہ نسوانی لڑائیاں اکثر دن کے اوقات میں ہی ہوا کرتی تھیں جب سب بڑے نوکری پہ چلے جاتے۔۔۔ مگر ہماری پڑوسن کے میاں جی کام کاج کچھ نہیں کرتے تھے اس لئے وہ اکثر گھر پر ہی رہتے تھے۔۔ ایسی لڑائیوں میں وہ خوب انجوائے کرتے۔۔۔ ان کی بیگم پکڑ پکڑ کر انہیں اندر گھسیٹتی تھیں۔۔۔۔ کہتیں کہ میں سب سمجھتی ہوں تم لڑائی نہیں دیکھ رہے ہو بلکہ لڑائی کے کرداروں کو دیکھ رہے ہو چلو اندر۔۔۔

ہر گلی میں چوبیس گھر ہوتے تھے۔ بارہ گھر ایک طرف اور بارہ گھر ایک طرف۔ اور ہر گھر آمنے سامنے۔۔۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بارہ نمبر والے گھر کی عورت کا جھگڑا پہلے نمبر والے گھر کی عورت سے ہوتا۔ تب بڑی مشکل پیش آتی۔ کیونکہ اتنے فاصلے سے لڑنا ممکن نہ ہوتا۔ الفاظ کے میزائل دشمن کے ٹھکانے تک کہاں پہنچتے۔۔۔ وار کریں بھی تو مدمقابل کو آواز ہی نہ جائے۔۔ تب طرفین کسی قریب کا گھر کا انتخاب کرتیں۔۔ ایسے میں اپنے ally کام آتے۔۔۔ آج کے دور کی زبان میں کہا جائے تو وہ قریب کے اپنے حمایتی گھر کو base بناتیں جیسے امریکہ نے افغان جنگ میں پاکستان کو base بنایا تھا۔۔۔ خیر پھر وہیں سے ایک دوسرے پر گولہ باری کی جاتی۔

تھوڑی دیر بعد جب جنگ کسی نتیجے پہ پہنچے بغیر ختم ہوجاتی تو سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتیں۔ مگر فریقین بعد میں بڑے فخریہ انداز میں اپنی سہیلیوں کو بتاتی پھرتیں کہ اری بہن میں نے تو اس کو ایسی سنائی کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گی۔