قضا کے ساتھ چلے زندگی کے بدلے میں
قضا کے ساتھ چلے زندگی کے بدلے میں
ملی نہ چھاؤں بھی اہل عمل کو رستے میں
جواب شہر خموشاں ہر ایک بستی ہے
گلاب کھلتے نہیں اب کسی دریچے میں
غم حیات کی پیغمبرانہ الفت کو
نہ جانے کب سے بسائے ہوئے ہیں سینے میں
پہنچ چکے ہیں یقیں کی حدود میں پھر بھی
لرز رہے ہیں قدم ساتھ ساتھ چلنے میں
شعور زیست کی الھڑ کرن نظر آئی
حیات نو کے سمٹتے ہوئے دھندلکے میں
تمہارے قرب کی وہ ساعت حسیں اب بھی
رواں ہے ساتھ مرے یاد کے سفینے میں
ہر ایک سانس سوئے کہکشاں بڑھی لیکن
قدم بھٹکتے رہے عمر بھر اندھیرے میں
نکل کے محبس شب رنگ سے جنوں والے
اسیر ہوتے رہے عصر نو کے دھوکے میں
کرے جو عزم سفر اس کو یہ خبر کر دو
کہ اک پڑاؤ ہیں ہم اس طویل میلے میں
بہا جو صبح بہاراں کی جستجو میں امیدؔ
اسی لہو کا ہے پرتو ہر اک شگوفے میں