قطع ہوتا رہے اس طرح بیان واعظ
قطع ہوتا رہے اس طرح بیان واعظ
ایک ہی بات میں ہو بند زبان واعظ
طرفہ آفت میں پھنسی آتی ہے جان واعظ
کون مے خانہ میں تھا مرتبہ دان واعظ
کیوں نہ مینائے مئے ناب پٹک دوں سر پر
عیش جب تلخ ہو سن سن کے بیان واعظ
اس طرح پند و نصیحت کی اٹھائی تمہید
آج ساقی پہ ہوا مجھ کو گمان واعظ
تیزیٔ بادہ کجا تلخیٔ گفتار کجا
کند ہے نشتر ساقی سے سنان واعظ
فصل گل آتے ہی مے خانہ میں اک بھیڑ ہوئی
نہ سنی ایک بھی رندوں نے فغان واعظ
پھر در پیر خرابات پہ بیٹھا ہے حبیبؔ
یہ تو آیا تھا ابھی سن کے بیان واعظ