قصد جاں ٹوٹ گیا قصد وفا ٹوٹ گیا

قصد جاں ٹوٹ گیا قصد وفا ٹوٹ گیا
ایک ہی ضرب میں مٹی کا خدا ٹوٹ گیا


آنکھ میں چبھنے لگیں کرچیں تو احساس ہوا
خواب کے ساتھ مرا خواب نما ٹوٹ گیا


وقت کی چال میں دنیا ہی اجڑ جاتی ہے
کیا ہوا تیرا جو اک خواب ذرا ٹوٹ گیا


دل سے ہم کھیلا کئے تھے تو یہی ہونا تھا
آئنہ چھوٹ کے ہاتھوں سے گرا ٹوٹ گیا


آج فرصت ہے ذرا سیر کریں باطن کی
جائزہ لینے دے کیا باقی ہے کیا ٹوٹ گیا


تم سے کیا جرم ہوا ہم سے کہاں بھول ہوئی
کیسے ممتازؔ یہ رشتوں کا سرا ٹوٹ گیا