قہر کیسا صبح دم باد بہاری کر گئی

قہر کیسا صبح دم باد بہاری کر گئی
پھول برسانا تھے دل پر شعلہ باری کر گئی


تشنۂ تکمیل اک مدت سے تھا ذوق جنوں
کام کچھ تو دوستوں کی سنگ باری کر گئی


جس قدر جھکتے گئے ہوتے گئے ہم سر بلند
رفعتوں سے آشنا یہ خاکساری کر گئی


ہم گنہ گاروں کو رحمت کی کہاں امید تھی
مستحق لیکن ہماری شرمساری کر گئی


ہر ورق دیوان دل کا نقش مانی ہے بہارؔ
نوک مژگاں دیکھیے کیا حسن کاری کر گئی