پیاسا کوا
گرمی کا جو موسم آیا
جلنے لگی پیڑوں کی چھایا
سوکھ گئی تھی ڈالی ڈالی
اور پتوں سے بھی تھی خالی
ننگے پیڑ پہ بیٹھا کوا
ہانپ رہا تھا جو پیاسا تھا
پانی کو وہ ڈھونڈھتا نکلا
گھر کے اک چھجے پر بیٹھا
ہر سو کال تھا پانی کا جو
گاؤں میں بھی تھا سوکھا پیارو
آنگن میں تھی ایک صراحی
اس میں تھا تھوڑا سا پانی
کوا صراحی تک جا پہنچا
لیکن پانی تہہ میں ہی تھا
چونچ کو اپنی اندر ڈالا
پانی تک وہ پہنچ نہ پایا
ہو گیا دیکھ کے یہ خوش کوا
بازو ڈھیر تھا کنکریوں کا
لایا اک اک کو یہ چن کر
ڈالتا جاتا تھا یوں کنکر
اس میں ڈالے اتنے کنکر
پانی ابھر کر آیا اوپر
پھر کوے نے پیاس بجھائی
اس کی جان میں جان اب آئی
اڑ گیا پھرتی سے اب کوا
چننے لگا پھر دانہ دنکا
عقل کا کھولو تم دروازہ
حل مشکل کا خود نکلے گا