پرانے خواب

سنی سنی سی لگی ہے مجھ کو
وہ سردیوں میں لحاف اوڑھے ہوئے کہانی
کہیں الاؤ کے گرد چلتے ہوئے وہ قصے سروں پہ اپنے انگوچھے باندھے ہوئے وہ قصے
الاؤ کے گرد جلتے بجھتے ہوئے وہ قصے کہیں پہ شہزادیوں کے قصے
کہیں پرندوں کی کھچڑیوں کی وہی کہانی
وہ ایک چڑا جو کھا گیا تھا تمام کھچڑی
کہیں نمک سی کہیں مرچ سی
کبھی وہ میٹھی کھٹائی جیسی نئی کہانی
بہت پرانی سی بات ہے یہ
نہ اب الاؤ کے گرد میلہ
نہ چڑیا چڑے کی وہ کہانی
نمک کی خاطر نہ شاہزادی نے دکھ اٹھائے


وہ شاہزادہ جو جنگلوں میں تلاش کرتا رہا تھا پانی
وہیں پہ اس کو پری ملی تھی
تمام جنگل بھی کٹ چکے ہیں
سراج انور کے سارے جنگل کہیں نہیں ہیں
وہ ساری پریاں بھی سو گئی ہیں
نہ شہزادے
نہ کوئی جادو بھری کہانی کہاں ہیں نسطور کے وہ قصے
جو ہاتھ اپنا بڑھا کے داوات کھینچتا تھا


بس اب تو وہ دور بھی ختم ہے
نہیں ہیں بچوں کے وہ رسالے
کھلونا پھلواری شریر لڑکا
نہ موٹو پتلو کے پیارے قصے
بس اب تو خبریں دہاڑتی ہیں