پُل
وہ میرے ساتھ ہی گھرسے چلی تھی، ہوٹل منزل!وجئے کا فون آیاتھا، یاراس موٹے بھدے سیٹھ کوپٹا لینا ، بزنس میں فائدہ ہی فائدہ ہوگا، میں نے کارلی تھی کہ وہ سیٹ پرآبیٹھی اوربولی ’’یادکرووہ بڑ سی حویلی اوراس کی روایت تم اس کی وارث ہو‘‘۔
’’تو۔۔۔‘‘
’’اپنی اس روایت کو آگے بڑھاؤ۔‘‘
میں پل کے قریب تھی، سورج کی گرمی مسلسل گھٹ رہی تھی، پل پر زندگی ، جاگتی ، کروٹ بدلتی، سانس لیتی دھڑکتی محسوس ہورہی تھی، اورپل کے نیچے ایک پُرشورندی تھی، جس کی روانی تجسس اورحیرت کے جذبوں سے ملی جلی نظرآرہی تھی،پُل پرخاصاہجوم تھا، ماتادیوی کا جلوس چل رہاتھا،یہ جلوس ۔۔۔یہ بے تحاشہ بڑھتی ہوئی ٹرافک دوڑتے رکتے لوگ میں بے بس سی ہوگئی، تھم گئی۔لوگ ہی لوگ ناچتے جھومتے ، بینڈکی آواز ۔۔۔باجے کاشور۔۔۔کا ن پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، سواریوں کی لمبی قطار اورٹرافک جام۔ کوئی اپنی منزل پہنچے توکیسے ؟
’’ڈیم اٹ‘‘میں بری طرح جھنجھلاگئی ۔
’’سنوتمہارے بابوجی بڑے دھارمک تھے نا‘‘اس کی آواز الگ جان جلانے لگی۔
’’ہاں تھے تو‘‘میں نے خودپرتوقابوپایا۔
’’اورتم‘‘
’’میں‘‘دفعتہ مجھے یادآیامیں توبچپن سے ایسی ہی تھی ، دھرم سے دوربھاگنے والی۔۔۔بھگوان سے آنکھ چرانے والی ، اپنی روایتوں سے بغاوت کرنے والی
’’جئے ماتادی۔۔۔جئے ماتادی‘‘ بھکتوں کی پُرشورآواز فضا ہلچل مچارہی تھی ان کی بھکتی میں ذرا بھرفرق نہ آیاتھا، وہ مست تھے، اپنی نیکیوں میں مست تھے ، ’’اچھاتوکہویہ منزل کہاں ہے‘‘
’’مغرب میں‘‘
’’اورہم مشرق میں۔۔۔کیوں کچھ سمجھیں‘‘
’’کیا‘‘
’’یہ ایک سنکیت ہے ‘‘
’’اونہہ ‘‘
میں نے اس بورسی شئے پرسے اپنا دھیان ہٹایااوراپنی نظراِدھراُدھردوڑائی تواپنے پاس ہی اس نیلی کارمیں ایک چہرہ تھا، لودیتاہواچہرہ محسوساتی مسکراہٹ مقناطیسی کشش وہ چہرہ میرے روبرو تھا،میں چونکی،ٹھٹھکی سٹپٹائی اپنے اندرجھانکا تودیکھاوہ ایک جھلملاتی سی جوت تھی، ہائے میں حیران رہ گئی ، یہ جوت۔۔۔یہ جوت اس چہرے سے کیوں پھوٹ رہی ہے جوکھڑکی پہ تھا، کون ہے ؟ یہ کون ہے۔۔۔میں نے ذہن پرزوردیا۔
’’مہاراج تمہارے کل گرو‘‘وہ بولی میں توہڑبڑا گئی۔
’’کیا۔۔۔کیا‘‘میرے اندرایک ہلچل سی مچ گئی۔یوں لگامیں ڈول رہی ہوں، دفعۃًدھویں کی ایک لکیرسی اُڑی ، انجنوں کا شوربلندہوا، گاڑیاں سرکنے لگیں ماتادیوی کا جلوس جاچکاتھا، ڈھول کی آوا زباجے کا شور۔۔۔بھکتوں کی جے جے کارسے پُل خالی تھا،میں نے دیکھاوہ لودیتاہواچہرہ میری گرفت سے نکل چکاہے ۔ایک آہ سردبھرتے ہوئے میں نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
’’پہلے جلوس ، پھرمہاراج ، تم اب بھی کچھ نہیں سمجھیں‘‘
’’نہیں اب تم چپ ہی رہو‘‘۔میں نے اسے بری طرح ڈانٹ دیا۔
’’مجھے جلدازجلدمنزل پہنچنا ہے‘‘
’’ مشرق سے مغرب کی اور‘‘
’’ہاں!‘‘
’’مجھے لگاتھاتم پلٹ پڑوگی ‘‘۔
’’وہ بھلاکیوں‘‘؟
’’تم ڈول جورہی تھیں‘‘۔
میں اس کی باتوں کوجھٹک کرپل پرسے گزرنے لگی بہت مضبوط پل تھا، جواس پرشورندی پربندھاتھا، جوشہرکومشرقی اورمغربی حصوں میں تقسیم کرتی تھی، پھردیکھتے دیکھتے مشرق کی ویرانیاں پیچھے رہ گئیں اورمغرب کی جگمگاہٹیں چکاچوندکرنے والی آنکھوں کوخیرہ کرنے والی روشنیاںآگے تھیں، میں بھی ان جگمگاہٹوں کا ایک حصہ بن گئی، مشرق کہیں بہت پیچھے رہ گیا، اورمیں مغرب میں چلی آئی ، اب ہوٹل منزل میرے روبروتھی۔
گاڑی پارک کرکے میں اندرچلی ہی تھی کہ دفعتہ وہ میرے سامنے آگئی اورراستہ روکتے ہوئے بولی
’’سنو۔اندرمت جاؤ۔ چلوواپس چلتے ہیں‘‘
’’نہیں اب یہ ممکن نہیں۔میں بہت دورآگئی ہوں ۔ اب میرے قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتے‘‘میں اس کے ہاتھ جھٹکتے ہوئے اندربڑھ گئی۔
ہوٹل کافی پُرکیف اوربارونق تھا۔ میں اپنی منتخب میزکے گردبیٹھی ہی تھی کہ وہ بھی کرسی کھسکاکرمیرے سامنے ہی بیٹھ گئی۔ اورسرگوشیانہ انداز میں بولی۔
’’ابھی کچھ نہیں گیا۔ چلوچلتے ہیں۔اس موٹے بھدے سیٹھ کورہنے دو‘‘
دفعتہ فضامیں ستارکی جھنکارہوئی۔وائلن کھنک اٹھا۔اورپھرطبلے کی تھاپ گونجنے لگی۔وہ موٹا بھدّاسیٹھ آگیااورمئے سے شغل کرنے لگاسازبجتے رہے۔ روشنیاں پگھلتی رہیں۔ رات ڈھلتی رہی اچانک میں نے محسوس کیاکہ کوئی مجھے دیکھ رہاہے۔ میں نے ادھر دیکھا۔وہی ایک چہر ہ لودیتاہواچہرہ، محسوساتی مسکراہٹ مقناطیسی کشش۔ مجھے لگاوہ چہرہ مجھے اپنے اورکھینچ رہاہے۔میں سحرزدہ سی اٹھی اوراس کی جانب چل پڑی پھرمجھے پتہ ہی نہ چلاکہ کب میں پُل کے پاس پہنچی ہوں لیکن یہ کیا؟ وہ مضبوط پُل توٹوٹ چکاتھا۔ پُرشورندی اورپُرشورلگ رہی تھی؟ میں ٹھٹھک گئی، ’’میں مشرق کی جانب جاؤں توکیسے ؟‘‘ میں نے بے اختیارسوچا۔
’’چلوچھلانگ لگاتے ہیں ، تیرکرپارکرلیں گے‘‘
وہ دشمن جان تومیرے سامنے ہی تھی۔ اوروہ لودیتاہواچہرہ پتہ نہیں وہ کیسے مشرق میں تھا۔ میں نے بے ساختہ چھلانگ لگانی چاہی کہ جانے کہاں سے وجئے نمودارہوا۔اورپھردیکھتے ہی دیکھتے اس نے اس دشمن جاں کو پُرشورندی کے حوالے کیا۔اورمیراہاتھ پکڑے مغرب کی اورچلدیا!!