پل صراط نہ تھا دشت نینوا بھی نہ تھا
پل صراط نہ تھا دشت نینوا بھی نہ تھا
تمہارا ہجر مگر ہم سے کٹ رہا بھی نہ تھا
نجانے کیوں تمہیں اک اک خراش جانتی تھی
ہر ایک زخم تمہارا دیا ہوا بھی نہ تھا
بندھے ہوئے تھے کئی عہد گر کرو محسوس
کرو جو یاد تو وعدہ کوئی ہوا بھی نہ تھا
دعا سلام تو رکھنی تھی تیرے کوچے سے
وگرنہ تجھ سے تو ملنے کو دل کیا بھی نہ تھا
میں اب بھی ان اجڑی ہوئی بستیوں کو روتا ہوں
جہاں پہ کوئی ٹھکانے کا آشنا بھی نہ تھا