پیا جن مکھ ترا دیکھا اسے پھر کیا دکھانا ہے

پیا جن مکھ ترا دیکھا اسے پھر کیا دکھانا ہے
چکھا جن رس ترے لب کا اسے پھر کیا چکھانا ہے


ہوا ہے دل مرا کولا برہ کی آگ کے بھیتر
اسی جرتی انگاری کوں کہو اب کیا جرانا ہے


نہ عاقل ہوں نہ دیوانہ نہ محرم ہوں نہ بیگانہ
اسے بے ہوش بے خود کوں کہو پھر کیا بتانا ہے


جدائی سے جرے عالم جروں میں رو بہ رو ہر دم
اسے مجنوں دوانہ کوں کہو پھر کیا ستانا ہے


گرا کر شیشۂ دل کوں لگے جور و جفا کرنے
خدا سے ٹک ڈرو ظالم گرے کوں کیا گرانا ہے


پیا کا درس جن پایہ ہویا ناداں نہ جانے کچھ
لیا جن سبق وحدت کا اسے پھر کیا پڑھانا ہے


فنا کے بحر قلزم موں پڑا یہ دل گیا گزرا
نہ جاگے روز محشر کے اسے پھر کیا جگانا ہے


پیا جن جام وحدت کا نہ راکھے خوف سولی کا
انا الحق جب ہویا الحق اسے پھر کیا ڈرانا ہے


سنوں ہر جا سخن تیرا دیکھوں سب موں رخن تیرا
ترا ہوں میں سجن تیرا مجھے پھر کیا لبھانا ہے


غلامؔ شاہ فاضل کا کہے دل سوں سنو یارو
دیکھا میں شہہ محی الدیں مجھے پھر کیا دکھانا ہے