پگھلتے جسموں کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

پگھلتے جسموں کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں
میں چھو رہا ہوں جسے اسی سے ڈرا ہوا ہوں


مجھے اسی ایک دکھ کی لت ہے اسی کو لاؤ
میں تازہ زخموں کی تازگی سے ڈرا ہوا ہوں


میں اپنے اندر کے شور سے خوف کھانے والا
اب اپنے اندر کی خامشی سے ڈرا ہوا ہوں


میں کس طرح اک سادا دل کو فریب دوں گا
میں اس کی آنکھوں کی سادگی سے ڈرا ہوا ہوں