پھولوں کے روبرو تھا ستاروں کے سامنے

پھولوں کے روبرو تھا ستاروں کے سامنے
وہ شخص جل رہا تھا ہزاروں کے سامنے


میں ذات کے غلام جزیرے میں قید تھا
چرچا مری انا کا تھا یاروں کے سامنے


چہرے بہت حسیں تھے مگر دل بہت اداس
منظر دھواں دھواں تھے بہاروں کے سامنے


باتیں ہمارے پیار کی شعلہ بیان تھیں
تنکوں کے آشیاں تھے شراروں کے سامنے


پھر اس کا ذکر تک بھی نہیں تھا شمار میں
جو شخص چل رہا تھا قطاروں کے سامنے


اے چاند مجھ کو گہرے سمندر میں لے چلو
میں ڈوبنے لگا ہوں کناروں کے سامنے


شبنمؔ کسی کلی کے جگر میں قیام کر
کیوں گر رہا ہے وقت کے غاروں کے سامنے