پھول اپنے وصف سنتے ہیں اس خوش نصیب سے
پھول اپنے وصف سنتے ہیں اس خوش نصیب سے
کیا پھول جھڑتے ہیں دہن عندلیب سے
افشاں تری جبیں کی ہماری نظر میں ہے
ہم دیکھتے ہیں عرش کے تارے قریب سے
تنہا لحد میں ہوں تو دباتے ہیں یہ مجھے
کیا کیا الجھ رہے ہیں ملک مجھ غریب سے
کعبہ میں ان کا نور مدینے میں ہے ظہور
آباد دونوں گھر ہیں خدا کے حبیب سے
یا رب برا ہو دل کی تڑپ کا کہ بزم میں
بیٹھے وہ دور اٹھ کے ہمارے قریب سے
مر جاؤں میں تو جاؤ مبارک ہو جان من
اللہ سے مجھے تمہیں ملنا رقیب سے
پہلو تہی جو کرتی ہے ملنے میں میری نبض
کہتے ہیں یہ شریر ملی ہے طبیب سے
ممنون ہوں میں حضرت نوشادؔ کا وسیمؔ
ملتے ہیں کیا بہ لطف حضور اس غریب سے