پھر کوئی تصویر ابھری خواب میں
پھر کوئی تصویر ابھری خواب میں
بے قراری ہے دل بیتاب میں
ساحل دریا پہ کیوں لرزاں ہو تم
میں چلا ہنستا ہوا گرداب میں
روشنی مل جائے باطن کو مرے
کچھ اضافہ ہو جو غم کے باب میں
اب کہاں اس چہرۂ زیبا کا عکس
بہہ گیا جو کچھ کہ تھا سیلاب میں
خواب خوش ہے دیکھ کر مہتاب کو
نیند گریاں بستر کمخواب میں
چاند کو دیکھے سے کوثرؔ ہنس پڑا
آپ کیوں ہیں اتنے پیچ و تاب میں