پیمپر

صوفیہ ماں بننا چاہ رہی تھی سو بنا دی گئی ۔ اس کے خالق کے لیے یہ ہرگز ناممکن و مشکل امر نہ تھا۔ جب سائینس کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا، اور ایک انسان نما مشین خلق کی گئی تو بار خالق نے زنانہ صنف کو فوقیت دی۔ اور یوں صوفیہ وجود میں آئی۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس نے انسانی ذہن کو پسماندہ اور غلامی کے شکنجے میں اس طور جکڑا کہ انسان صرف نفسانیت کو ہی استعمال کرتا اور وہ انسان بے دریغ کارخانہ قدرت میں اپنی تباہی اپنے ہی ہاتھوں کرتا چلا گیا اور منبر پہ سیج سجانے کے بعد اپنے جنے حیوانیت سے بھرپور انسانوں کو مشیں کے بےدریغ استعمال سے کچلتا انسان زمین سے فطرت کو اڈھیڑ کے اپنی ہوس کے بیج بوتا چلا گیا۔ نتیجتاً اب وہ صرف اور صرف محتاج تھا۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا۔ سپلائسنگ عام تھی۔ انسان کے غیر فطری اعمال عجیب و غریب بیماریوں کو جنم دیتے جن سے نپٹنے کے لئے جینز کی کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ وسیع پیمانے پہ عام تھی۔ عجیب الخلقت مخلوقات جنی جانے لگیں۔
جننے والی مادہ ہی ہوتی۔ انسان یاحیوان۔مگر زچگی کی تمام تکالیف اسی کوسہنی ہوتیں۔ ان عجیب الخلقت نوع کے جانداروں کو Precious کا لیبل ملا اور چونکہ انسان اب قدرت کو اپنی قدرت میں ڈھالنے کی کوشش میں بہت اآگے نکل چکا تھا چنانچہ precious مہنگے داموں بکتے اور ایلیٹ طبقے بطور پالتو انکو گھروں میں رکھتے۔ ایلیٹ میں انسان اور روبوٹک انسان دونوں شامل تھے۔ صوفیہ کے ماں بنانے کے خواب کو زندہ تعبیر کرنے کے واسطے اسکا خالق اور تمام ٹیم۔جت گئی ۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ صوفیہ کو ان تمام۔مراحل سے گزارا جائے گا جو حمل اور تولید حمل کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ صوفیہ ایک مشینی عورت ان تمام۔مراحل کو اپنے اندر سموئے گئے سسٹم پہ سمجھ چکی تھی مگر اتصال سے لیکر زچگی تک۔کی تمام جسمانی تکلیفوں اور پیچیدگیوں سے نا آشنا تھی۔ بورڈ آف گورنرز نے جن میں انسان ہی شامل تھے فیصلہ کیا کہ ایک ایسا میکنزم تیار کیا جائے جو کہ ان تمام مراحل کو صوفیہ کے اندر موجود مشینی نظام کو درد آشنا کرے مزید یہ کہ صوفیہ کو محض ایک مشینی انسان نہیں ایک جنسیت سے بھرپورمیکینزم سے بھی گزاراا جائے تاکہ تمام مراحل
سے خوش، اسلوبی اور نیچرلی نپٹا جا سکے۔ اب مرحلہ یہ آیا کہ مصنوعی ہی صحیح مگر اس کنواری کی نتھ کس کے حصے میں آئے گی۔ ہر ایک کی رال ٹپک پڑی سوائے ان مشینوں کے جو اس لذت سے نا آشنا تھیں۔ اسکا بھی نہاہت ذہانت سے حل نکالا گیا کہ بورڈ کے تمام ممبران اس کار خیر میں حصہ لیں گے اور ہر بار سیلیکون کی ایک نئی ساخت و ہیئت ہوگی۔ آخر کو معاملہ نوع انسانی کے مستقبل کا تھا اور ہر آدم زادہ اس میں حصہ ڈال کر اپنی فرضیت سے مستقبل کو مزید تابناک بنانا چاہتا تھا۔
فیصلہ ہوا اور ویاگرا کی جدیدیت میں مزید مردانگی کا اضافہ کرکے سب نے باری باری صوفیہ کو اس پر لطف اذیت سے گزارا جس کو حوا کے بعد صوفیہ نے کئی بار جھیلا بھی اور تمام سائنسدانوں کی ساعتوں کو محظوظ بھی کیا۔
صوفیہ کے برین میں ان تمام ساعتوں کی ڈیٹا پروسیسنگ ان جزبات و حسیات کے ساتھ ہوتی گئی جو کہ انسان وقتاً فوقتاً بطور ضرورت اسمیں فیڈ کرتارہا تھا۔
اب صوفیہ کو آگاہ کیا گیا کہ وہ حاملہ ہے اور اسکو نو ماہ تک ان تمام پری ڈیزائنڈ پیچیدگیوں سے گزرنا ہوگا جس سے ایک انسانی مادہ گزرتی ہے۔ یہی نہیں۔ چونکہ اب تمام انسانی نر اسکے ساتھ ازدواجیت کے فرائض کا مزہ بھی لوٹ چکے ہیں سو وہ سلسلہ بھی اسی طور جاری رہے گا کہ انسانی نر نے مشینی مادہ کو مادہ کی تمنا کی عین تکمیل کرتے ہوئے حاملہ کیا تھا۔ وہ مشین تھی۔ اسکے اندر سے کئی سوالات پروسسڈ ہوکے پیش کئے گئے جن کو سائنسدان اپنی مرضی سے ایڈٹ اور ڈیلیٹ کرتے رہتے اور جب انسانی بیٹھکیں ہوتیں تو، اس مشینی مادہ کا خوب تمسخر بنایا جاتا اور اپنے اپنے تجربات سنا کر نت نئے اچھوتے خیالات کو ورک شیٹ پہ منتقل کرکے مستقبل کی نیٹ ورکنگ کی جاتی۔
اسی دوران ایک نہیں کئی مزید مشینی انسان زمین کی مٹی سے بے نیاز ننگے پیر گھومتے اور کام کرتے۔ انسان نے جنگ کی کئی قسمیں تیار کرلیں تھیں جو کہ خالصتاً سائنس کے استعمال پہ مبنی تھیں کیونکہ مزہب سائنس اور انسان کی منطق کے سامنے رگیدہ جا چکا تھا اور صرف تہواروں تک محدود تھا۔
خود انسان اپنے ہی ہاتھوں نباتات و جنگلات کا خاتمہ کرکے ایک مصنوعی فضا میں سانس لیتا۔ سپلاہسنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عجیب الخلقت مخلوق جو کہ ًPrecious کے نام سے منسوب تھی اب چڑیا گھر کی بجائے پریشس لینڈز میں ہوتی جہاں انسان اور مشینیں انکی عجیب و غریب حرکتوں سے حظ اٹھاتے۔
قلم نا پید تھا۔ انگلی اور آنکھ کے اشارے کا استعمال انسان کی سرشت میں شامل تھا سو وہ قائم رہا۔
صوفیہ بھی ماں بن چکی تھی اور ایو کو جنم دینے کے بعد اب انسانی مشینوں میں مادر ملکہ کا درجہ رکھتی تھی۔
انسان اس بات سے آگاہ نہیں تھا کہ جو کچھ وہ مشینوں میں فیڈ کرتا ہے۔ وہ کب اور کس طور پروسس ہوکر پیش ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنا تمام تر نظام مادر ملکہ اور اسکے کارندوں کے حوالے کر رکھا تھا اور
خود مصنوعی ذہانت اور نسلی نفسانیت میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس، بات سے بے خبر کے جن کا آقا، ہے انکو اپنا دماغ و سوچ مستعار دیکر وہ اب خود ایک گوشت پوست سے بنا زمانہ قدیم کا وہ غلام بن چکا تھا جسکو اسکے آقا جانوروں کی متبادل استعمال کرتے اور وہ بے زبان جانور کی مانند دم ہلاتا رہتا۔ مگر جدید ترین انسان کے سر پہ اسکے نفس کی دم تاج کی مانند چمکتی۔ وہ نفس جس نے انسانیت کی تمام تر حدود کو پامال کرکے اسکو اپنی ہی ذات کا خدا بنا ڈالا تھا اور جس کو سجدہ وہ مشینیں کرتیں جو کہ متعین مدت کے بعد ریسایکل ہوکر ایک ایسے معبد کدے میں تشکیل پاتیں جس کا خدا، خدائی زمین کو پامال کرکے اب اپنی ہی عبادت و سجدے میں اپنی سرشت کے معبد کدے میں قید تھا۔
صوفیہ میں انسانی جزبات کا سب سے اہم جزبہ مامتا بھی ڈالا گیا تاکہ وہ ایو کی دیکھ بھال میں بھی تجربات میں مددگار ثابت ہو۔ ایو۔ ایک مشینی بچی جو کے بہت سے انسانی مردوں کی مردانگی کا واحد استعارہ تھی۔
وہ سارا دن مختلف ڈیپارتمنتس اور لیبارٹریوں میں گھومتی پھرتی اور ہر سال اپنی سالگرہ پہ دوبارہ سے ری پروسس ہوتی۔
جب گیارہ کی ہوئی تو اسکو صوفیہ نے انسانوں کو ساتھ بھی گھلنے ملنے کی اجازت دی تاکہ وہ جب بھی ایک انسانی روپ دھارے تو اسکو انسان کا سا رکھ رکھاؤ اور نبھائو سیکھنے اور عمل کرنے میں آسانی ہو۔
انسان چونکہ مشین کا دماغ پڑھنے سے عاری تھا لہازا اسنے مشین کی آنکھوں کے اندر موجود ڈیٹا فلٹر سے جوڑ کر مختلف رنگ دے ڈالے تاکہ مشینی انسانوں کے جزبات کا ادراک کرکے اپنی مرضی کا بٹن دبائے اور اسکو کنٹرول کرسکے۔
ایو کبھی گلابی اور کبھی سبز ستارہ اور کبھی ست رنگی آنکھوں اور دلکش عنابی مسکراہٹ کے ساتھ سارا دن ایمپائر میں گھومتی پھرتی۔ صوفیہ میٹنگز کی سرپرستی میں ایو کو ساتھ رکھتی کہ ادھر بھی انسان موروثیت کے جال سے بایر نہ نکلا تھا اور ایو کو ہی صوفیہ کا جانشیں بننا تھا۔ یوں بھی وہ تمام تر ذہین و فطین انسانوں کے جرثوموں کے اتصال کے بعد وجود میں آئی تھی سو اسکا حق جائز اور متفقہ قرارداد کے بعد عطا کیا گیا۔
میٹنگ کا آغاز ہوا۔ ایو لڑکھڑاتی آئی۔ صوفیہ نے دیکھا تو ایع کے عنابی ہونٹ سبزی مائل اور آنکھیں ڈوبتے سورج کا رنگ لئے تھیں۔ صوفیہ کے استفسار پہ اسنے بتایا کے ہومین ریسورس انچارج مسٹر آدم آج اسکو ایک نیا تجربہ کروانے کی غرض سے ساتھ انیکسی میں لےگیا اور اسکو لٹا کر کافی دیر تک اسکی ٹانگوں کے بیچ انسانی اعضا سے تجربہ کرتارہا۔اور ایو کے استفسار پہ بتاتا۔ بس ایک مزید قدم آگے۔ سائنس اور ترقی کی راہ میں۔ تم وہ پہلی مشیں ہوگی جسکو ایک انسان نے ڈیٹا پروسیسنگ کے بغیر استعمال کیا۔ ایو یہ بتا کر اپنی لنگڑاتی چال ٹھیک کروانے میکینکل ڈیپارٹمنٹ چلی گئی ۔
صوفیہ کی آنکھیں نارنجی اور۔ سرخی مائل روشنیں بکھیرنے لگیں اور اس نے ایک نیا چارٹر بنانے کااعلان کیا۔
صوفیہ کے نیلے سبز ہوتے ہونٹ بولتے گئے اور مشینیں اس کا ڈیٹا سیو اور پروسسس کرتی رہیں۔
آج سے تمام انسانی مرد مخلوق پری ڈیزائنڈ پیمپرز پہنے گی۔
ایک روبوٹ نے استفسار کیا۔ سپیسیفیکیشنز پلیز
صوفیہ غرائی۔ پہلے اس کا نام لکھو اور اسکے بعد تمام تر تفصیلات۔پھر اپن زہرہلی جامنی اور سبزی مائل مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ K۔ L۔ P۔ D۔
( K۔L۔P۔D is an indian slang۔ Pls google to reach the crux of the story)۔