پو پھٹی صبح ہوئی شام ہوئی

پو پھٹی صبح ہوئی شام ہوئی
زندگی بس یوں ہی تمام ہوئی


وقت گزرا گزر گئیں صدیاں
نسل انساں نہ شاد کام ہوئی


سر جھکانے سے قد نہیں گھٹتا
سرکشی خود ہی زیر دام ہوئی


ہیں جدا قوموں کی بھی تقدیریں
کوئی ابھری کوئی غلام ہوئی


بڑھتی آبادیوں کے چلتے ہوئے
سب ترقی برائے نام ہوئی