پرستش کر رہا ہے ہر جوان و پیر پتھر کی

پرستش کر رہا ہے ہر جوان و پیر پتھر کی
صنم خانے میں آ کر جاگ اٹھی تقدیر پتھر کی


تصور نے بت کافر کی دل میں شکل کھینچی ہے
تماشہ دیکھیے شیشے میں ہے تصویر پتھر کی


تصور دل میں اشک آنکھوں میں لب پر مہر خاموشی
بنا بیٹھا ہوں ان کی یاد میں تصویر پتھر کی


ادب سے زاہد کعبہ نشیں بھی چوم لیتا ہے
تمہارے در سے لگ کر بڑھ گئی توقیر پتھر کی


گرے آنکھوں سے اتنے لخت دل یاقوت بن بن کر
نظر آتا تھا تار اشک اک زنجیر پتھر کی


نہ بل آ جائے جوہرؔ دست نازک میں خدا حافظ
ادھر ہے سختیٔ جاں اور ادھر شمشیر پتھر کی