پلکوں میں آنسو
اور آج میرا سارا سکون درہم برہم ہوگیا ہے!!
درد کے تمام فاصلے سمٹ آئے ہیں۔ میرے سینے میں عجیب سی کسک چُٹکیاں لے رہی ہے۔ شاید اُس کے دل کا درد زہر بن کر میری روح کی گہرائیوں میں اُتر رہا ہے اور میں امجد کے غم کی آگ میں سُلگنے لگی ہوں۔
امجد شروع ہی سے سنجیدہ رہا ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں سے میں نے اُسے اکثر اُداس اور غمگین دیکھا ہے۔ اُس کے چہرے پر ہر وقت غم واندوہ جھلکتا رہتا ہے۔ میں نے اُس کی آنکھوں میں ہمیشہ درد وکرب کے سایے لہراتے دیکھے ہیں۔ میں اُسے اس طرح مضمحل اور اُداس دیکھنا نہ چاہتی تھی۔ میں اس کی زندگی کے خزاں رسیدہ چمن میں سدا بہار کی مُسکراتی ہوئی کلیاں، لہلہلاتے ہوئے پھول اور جھومتی ہوئی ڈالیاں دیکھنا چاہتی تھی۔ میں اُس سے اکثر کہتی ’زندگی میں مُسکراہٹ اور مسرت کافی اہمیت رکھتی ہے۔ ہماری زندگی کو کامیاب بناتی ہے اور ہم زندگی سے صحیح طور پر لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ انسانی زندگی سے خوشی اور غم کا گہرا تعلق ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ ہم غم ہی کو سب کچھ سمجھ کر اُسے اپنے سینے سے چمٹائے رکھیں۔ تم تو فنکار ہو، تمہارے چہرے پر اُداسی کی لکیریں زیب نہیں دیتیں۔ تم ہنسنا اور خوش رہنا سیکھو۔ زندگی کا راز مسرت میں مضمر ہے۔ تم مُسکراہٹوں کی چاندنی سے زندگی کے مہیب اندھیرے کا سینہ چیر سکتے ہو، میری اِس تلقین سے اُس کے خُشک ہونٹوں پر پژمردہ تبسم آجاتا۔ اُس کی مسکراہٹ میں بھی حزن وملال ہوتا!
میں اُس کی زندگی کی المناکی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی جس نے اُس کے روز وشب کو حسرتوں میں بدل دیا تھا۔ آخر وہ کون سا غم ہے جس نے اُس کے ہونٹوں سے مُسکراہٹیں نوچ لی ہیں، اُس کی خوشیاں اور مسرتیں اُس سے چھین لی ہیں لیکن میں کوشش کے باوجود معلوم نہ کرسکی۔ میں نے سوچا شاید شادی کے بعد اُس کی زُلفِ حیات سنور جائے، اُس کا مستقبل چمک اُٹھے۔ لیکن کوئی اُسے شادی کے لیے کہتا تو وہ ٹال جاتا، کبھی کبھی دبے لہجے میں کہتا، وہ شادی کرے گا ہی نہیں۔جب ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے پیغام آیا تو میں نے اُسے کافی سمجھایا کہ وہ یہ رِشتہ قبول کرلے۔ میں اُس لڑکی کی تعریف وتوصیف کرنے لگی تو اُس نے مُسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیا وہ آپ کی سی ہے؟‘‘
’’مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت!‘‘
میں نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔
’’کتنے خوش نصیب ہیں بھائی جان جنھوں نے آپ جیسی بیگم پائی ہے!!‘‘
وہ خلا میں دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
آخر کار میری ضِد اور پیار کے آگے اُس کی ایک نہ چل سکی۔ وہ میرے اصرار پر نجمہ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوگیا۔ اور یہ خبرگھر کے لوگوں کے لیے موجبِ مسرت ہوئی۔
لیکن منگنی کے دن
میں جیسے ہی اُس کے کمرے میں داخل ہوئی ٹھٹک کر رہ گئی۔ وہ اپنے بستر پر پڑا منھ چھپائے رو رہا تھا۔ کمرے کی ساکت فضا میں اُس کی ہلکی ہلکی اور گھٹی گھٹی سی سسکیاں اُبھر رہی تھیں، اُبھر رہی تھیں اور ڈوب رہی تھیں۔ میرا جی چاہا اس کے پاس جاکر پوچھوں وہ کیوں رو رہا ہے؟ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ میرا خیال ہے غم کے وقت ہمدردی جتانے اور تسلی دینے سے آنسو تھمتے نہیں، ہچکیاں اور بندھ جاتی ہیں، صبر وضبط کا دامن چھوٹ جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی گنگ وجمن بہنے لگتی ہے۔ اس لیے میں دبے پان58و لوٹ آئی۔
میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات اُبھرنے لگے یہ رِشتہ اُس کی منظوری سے طے پایا تھا! وہ مجھ سے کہہ چُکا ہے کہ وہ کسی سے محبت نہیں کرتا۔ تو پھر وہ کیوں رو رہا ہے؟!‘ میرے ذہن میں بار بار یہ سوال اُبھرنے لگا۔
دوسرے دن شام کی چائے پر میں نے کہا۔
’’ایک بات پوچھوں امجد؟‘‘
’’ضرور!‘‘
’’سچ سچ بتاؤگے؟‘‘
’’کیوں نہیں!‘‘
’’کل تم کیوں رو رہے تھے؟‘‘
وہ اُداس ہوگیا۔
’’کیا تمہیں نجمہ پسند نہیں؟‘‘
’’کیوں؟!‘‘
وہ متعجب ہوا۔
’’تو پھر کل ‘‘
’’نہ جانے کیوں رنج کے لمحوں میں ہنسنے اور مسرت کے موقع پر رونے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
اُس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’نہیں، ضرور تمہارے دل میں کوئی درد ہے جو برابر نشتر لگاتا رہتا ہے۔‘‘
اس کے چہرے پر اُداسی اور اضمحلال کے سایے گہرے ہوئے۔
’’کیا تم کسی اور کو چاہتے ہو؟‘‘
وہ خاموش رہا اور پھر اُٹھ کر جانا چاہا۔
’’تمہیں میری قسم! اب بھی بتاؤ وہ کون ہے؟‘‘ میں نے اُس کا بازُو پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’چھوڑیے۔ کیا کیجیے گا پوچھ کر؟‘‘
وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’ابھی اُس کی شادی ہوئی ہے یا نہیں؟‘‘
’’ہوچکی۔‘‘
’’یہ کب کی بات ہے؟‘‘
’’برسوں پُرانی۔‘‘
’’لیکن تم نے کبھی مجھ سے اُس کا ذکر نہیں کیا؟‘‘
’’ہاں نہیں کیا ‘‘ اُس نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا ’’انسان جب کسی چیز کو نہیں پاسکتا تو پھر اُس کی سعی کیوں کرے۔‘‘
’’کوشِش کامیابی کی پہلی منزل ہے۔‘‘
’’خیر جانے دیجیے۔‘‘
’’تم نے اُس سے شادی کیوں نہ کی؟‘‘
اور وہ جواب دئے بغیر اٹھ کر چلا گیا۔
لیکن آج مجھ پر سب کچھ عیاں ہوگیا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کسی نے مجھے درد کے اتھاہ سمندر میں پھینک دیا ہے اور میرا وجود ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگا ہے۔ امجد کے شکستہ خوابوں کی کرچیاں میرے دل کی گہرائیوں میں چُبھ رہی ہیں۔
میں ابھی ابھی امجد کے کمرے میں داخل ہوئی ہوں۔ وہ اب تک پلنگ پر نیند کے مزے لے رہا ہے۔ طلوعِ آفتاب کی رُو پہلی کرنیں دریچے سے چَھن چَھن کر اُس کے رُخسار چوم رہی ہیں۔ پلنگ کے پاس میز پر اس کی ڈائری کھلی پڑی ہے۔ شاید وہ رات دیر تک جاگا ہے۔ میری نگاہیں ڈائری کی تحریروں میں اُلجھ گئی ہیں۔ کسی کی ڈائری پڑھنا اخلاقی جرم ہے۔ لیکن میں دانستہ اِس گناہ کا ارتکاب کررہی ہوں اور ڈائری اٹھا کر پڑھنے لگی ہوں۔
’’ آج پھر ماضی کے تمام نقوش چمک اُٹھے ہیں۔ عظیم آباد کے حسین لمحات میری نظروں میں جگمگانے لگے ہیں اور میں بکھری ہوئی دیرینہ یادوں کو سمیٹنے لگا ہوں شہناز کے ساتھ بیتے ہوئے دنوں کی یادیں شہناز میری آرزُوؤں کا پیکر، میری تمناؤں کی کائنات،میرے خیالوں کا مرکز، میرے خوبصورت خوابوں کی شہزادی،شہناز جن کے ساتھ گُزرے ہوئے حسین لمحات کی یادوں کے تیر آج بھی میرے دل کو چھیدتے رہتے ہیں۔
شہناز میری کلاس فیلو تھی۔ یوں تو کالج میں بہت سی لڑکیاں تھیں اور سب ایک سے ایک خوبصورت اور حسین تھیں۔ لیکن وہ سِتاروں میں ماہتاب تھی! وہ قدرت کا حسین شاہکار تھی۔ صبیح پیشانی پر مریم کا تقدس ، شبنم میں دُھلے ہوئے گلابی رُخساروں پر نکھار، کیف میں ڈوبی ہوئی آنکھوں پر لانبی نوک دار پلکوں کی خوشنما جھالر، تراشیدہ یاقوتی ہونٹوں پر مونالِزا کا تبسم، متناسب جسم کے دلکش وجاذب نظر خطوط اور رفتار میں ا یک شان تمکنت :
حُسن اِس شان سے چلتا ہے خُدا ہو جیسے
زیر پا چاند ستاروں کی ردا ہو جیسے
اُس کے ملکوتی حسن نے میرے احساسات کو جگا دیا۔ اُس میں ظاہری حُسن کے ساتھ باطنی خوبیاں بھی تھیں۔ اُس کی شخصیت تمام محاسن سے مزین تھی۔اس کی غیر معمولی علمی صلاحیت اور ذہانت نے مجھے کافی متاثر کیا۔ خصوصاً مزاج کی ہم آہنگی نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب تر کردیا۔ ہمارا سبجکٹ بھی تو ایک ہی تھا!
رفتہ رفتہ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا رہا اور دوریاں قُربت میں مدغم ہوتی گئیں۔ کبھی کالج کینٹین میں چائے کی چُسکی کے ساتھ ادبی بحث بھی چھڑ جاتی تو کبھی ہم لان میں موسمِ سرما کی پیاری پیاری دھوپ میں گھنٹوں بیٹھے باتیں کرتے رہتے۔ ہمیں ایک ساتھ دیکھ کر کتنے طلبا رشک کرتے۔ جب ہم ایک ساتھ ہوتے تو ہمیں ایک دل نواز فرحت ومسرت کا احساس ہوتا۔
ہماری ملاقاتوں کے لمحات ہفتے، مہینے اور سال میں ڈھلتے رہے اور ہمیں وقت کا احساس نہ رہا۔ ہماری زندگی رواں دواں ندی کی مانند گزرتی رہی۔ وہ بہار بن کر میری زندگی کے سمن زار پر چھاتی گئی اور میرے دل کے چمن میں تمناؤں کی کلیاں کھلتی رہیں، آرزوؤں کے غنچے چٹکتے رہے۔ اُس کی قربت ورفاقت میں اُس کی میگوں آنکھیں مجھے مدہوش بناتی رہیں۔ میں شرابِ محبت پیتا رہا، پیتا رہا اور مخمور وبیخود ہوتا رہا۔ مستقبل سے بے نیاز، انجام سے بے خبر! میرے دل میں آبِ زمزم کی طرح پاکیزہ اور گنگا جل کی مانند پوتّر محبت بڑھتی رہی اور پروان چڑھتی رہی۔لیکن میں کبھی حرفِ محبت زبان پر نہ لاسکا اور اپنے من مندر میں اُس دیوی کی پوجا کرتا رہا۔
سالانہ امتحان کے پرچہ کا آخری دن تھا۔ اُس کے بعد کالج طویل مدت کے لیے بند ہورہا تھا۔ ہم سبھی ساتھی آخری بار مِل رہے تھے۔ مجھے شہناز کی جُدائی کا احساس دُکھ پہنچانے لگا۔ وہ بھی افسردہ تھی۔ میں نے اظہارِ محبت کرنا چاہا۔ لیکن حسن اور محبت کے درمیان انسانیت کا پردہ حائل رہا۔ آس اور یاس دامن گیر رہی اور ہماری محبت شرمندۂ الفاظ نہ ہوسکی۔ ہم ایک دوسرے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ گئے۔ اُس کے بعد ہم سب کے سب سوکھے پتّوں کی طرح بکھر گئے۔ ہماری رفاقت کے سر سبز وشاداب گلشن کی ساری کلیاں مُرجھاگئیں، سبھی پھول کمھلا گئے۔ کسی کو کسی کی خبر نہ رہی اور میں بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلا گیا۔ لیکن شہناز کی یادوں کی شمع میرے دل میں روشن رہی کچھ دنوں کے بعد جب ‘‘
ڈائری میرے ہاتھ سے گر گئی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے میرا وجود شعلوں کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ رگ وپَے میں آگ سی لگ رہی ہے۔ میں اپنے کمرے میں آکر کٹی ہوئی شاخ کی طرح پلنگ پر گر گئی ہوں اور میری آنکھیں نمناک ہوگئی ہیں، پلکوں پر لرزتے ہوئے آنسوؤں میں بیتے ہوئے دنوں کی حسین تصویر جھلملانے لگی ہے!!