پاکستانی پولیس کی خامیاں

        پولیس ہمارا وہ ادارہ ہے جو ہمارے جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ لیکن بد قسمتی سے یہ ادارہ اپنی اس ذمہ  داری کی بجاآوری میں خاصا کمزور نظر آتا ہے۔ پاکستان کا ادارۂ شماریات ہمیں بتاتا ہے کہ صرف 2018 کے ایک سال کے دوران 7,03481 جرائم ریکارڈ کیے گئے۔ ان جرائم  میں قتل، اقدام قتل، چوری، ڈاکہ، دھوکہ دہی وغیرہ جیسے جرائم شامل ہیں۔

 

ہماری پولیس ان جرائم کے روک تھام میں ناکام رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ان وجوہات کو پنجاب پولیس کے سابق آئی جی جناب شعیب  سڈل نے اپنے ایک پوزیشن پیپر میں تفصیل سے درج کیا ہے۔ ہم اس آرٹیکل میں  بیان کردہ ان تمام وجوہات کو مختصر طور پر دیکھیں گے۔

پاکستان کی پولیس کمزور ہونےکی وجوہات:

1۔ پولیس کا پرانا اور فرسودہ ادارہ جاتی و قانونی نظام جو کہ بیشتر دیہی علاقوں اور مختصر طور پر صنعتی علاقوں کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اب جب کہ کراچی،  لاہور، اور فیصل آباد جیسے بڑے شہر بن چکے ہیں تو ان میں یہ نظام بالکل کارآمد نہیں۔ مزید یہ کہ اس نظام کو برطانوی راج کے نفاذ اور عوامی مخالفت کو دبانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ لہٰذا یہ ایک آزاد عوامی ریاست کے لیےبالکل کار آمد نہیں۔

2۔ ریاست کی انتظامیہ کی جانب سے پولیس کا دانستہ اور غیر دانستہ طور پر منفی استعمال۔ اور اس منفی استعمال میں پولیس افسران کا انتظامی عہدے داران کے ساتھ ملے ہونا۔

3۔پولیس کا کمزور اور ناکافی احتساب۔

4۔  اچھی کارکردگی دکھانے پر پولیس جوانوں کی نا کافی پزیرائی اور اس کے نتیجے میں  ان کے حوصلوں کا متاثر ہونا۔

5۔ بری طرح پھیلی ہوئی اور مسلسل بڑھتی ہوئی  کرپشن۔

6۔ وسائل کی بے حد کمی۔

7۔ پولیس کی فرسودہ تشکیل جو کہ صرف عوام کو دبانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔

8۔ پولیس کو  جمہوری طور پر ہی  سنبھالا جاتا  ہے اور نہ ہی  پولیس سیاسی طور پر غیر جانب دار ہوتی ہے۔

9۔ پولیس سماجی طور پر ہی تشکیل پاتی ہے  اور نہ معاشرتی طور پر اسے  ایک ذمہ دار ادارہ  بنایا جا سکا ہے۔

10۔ پولیس کے ذمے دوہری ذمہ داری ہے۔ یعنی ایک تو قانون کی عمل داری یقینی بنانا اور دوسرا ملک کا نظم بھی سنبھالنا۔

11۔ پولیس میں سیاسی بھرتیاں ۔ اسی طرح ترقی کی بنیاد بھی سیاسی ہونا اور اسی طرح تعیناتیاں بھی سیاسی بنیادوں پر ہی ہونا۔

12۔ پولیس کے اہلکاروں کا نا کافی حد تک  تربیت یافتہ ہونا۔  خاص طور پر معاشرے کے کمزور طبقات کے ساتھ معاملات طے کرنے میں۔

13۔ بعض اوقات بہت سفاقانہ اور احساس سے عاری طریقے سے قانون پر عمل داری کی کوشش۔ جس سے پولیس کا شہریوں کے لیے پولیس بطور خوف کی علامت بن جانا۔  پھر پولیس کی جانب سے اس خوف کا جائز اور ناجائز فائدہ اٹھانا۔

14۔ پولیس کے اہلکاروں میں عزت نفس کی کمی۔

15۔ پیشہ ورانہ  مزاج کا فقدان۔

16۔ پولیس کے ساتھ سماج کی وابستگی نہ ہونا۔

حاصل کلام:

ہماری پولیس کے اندر یہ بنیادی کمزوریاں ہیں جن کے باعث آج یہ عوام کے لیے ایک خوف کی علامت تو ہے لیکن قانون شکن اسے اپنی  برادری محسوس کرتے ہیں۔ ان کے لیے پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صاف بچ نکلنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں ہماری پولیس ترقی یافتہ ممالک کی پولیس  جیسی نظر آئے اور ہمارے لیے واقعتاً  ایک سہولت کا باعث ہو تو ہمیں ان وجوہات پر غور کرنا ہوگا اور اپنے سیاسی لیڈران سے مطالبہ کرنا ہوگا کہ ان کمزوریوں کے خاتمے کے لیے آہنی اقدامات اٹھائیں۔ تاکہ ہمیں بھی ایک پر امن، پر سکون، قانون پر عمل کرنے والا معاشرہ نصیب ہو۔