پہلا جشن آزادی
اے ہند کے باشندو آؤ اجڑا گلزار سجا ڈالیں
اب دور غلامی ختم ہوا اک تازہ جہاں کی بنا ڈالیں
اب ہند کی اصلی عید ہوئی جو آزادی کی دید ہوئی
پڑھ پڑھ کے نماز آزادی اب روٹھے ہوؤں کو منا ڈالیں
کشتی بھی نئی دریا بھی نیا ساحل بھی نیا ملاح بھی نئے
اب کر کے بھروسہ ہمت پر طوفان میں راہ بنا ڈالیں
ہیں رنج و خصومت اک روڑا راہ آزادی میں اب بھی
ہم رنج پرانے دور کریں بچھڑوں کو گلے سے لگا ڈالیں
جو ملک تھا سونے کی چڑیا بندھن نے اسے پامال کیا
غربت کو یہاں سے دور کریں پھر دودھ کی نہریں بنا ڈالیں
پھر بوس سے یودھا پیدا ہوں جو ہند کی قسمت جاگ اٹھے
اک بار زمانے پر سکہ پھر مادر ہند بٹھا ڈالیں
اس بوڑھے ہمالہ پربت سے پھر نور کا چشمہ اہل اٹھے
اس میل و محبت کے جل سے ہر باشی کو نہلا ڈالیں
یہ ہند کی آزادی گویا کل مشرق کی آزادی ہے
پھر مشرق مشرق بن جائے جو ظلم کے دور مٹا ڈالیں
انورؔ کی دعا ہے اے مولا پھر ہند کی قسمت جاگ اٹھے
بچھڑے آپس میں مل جائیں ہم روٹھے ہوئے کو منا ڈالیں