پہلا پیار
کہتے ہیں جس دن پہلی بار رحیم داد کو ماسٹر شریف نے چمکار کر گود میں بٹھایا تھا اسی دن رحیم داد سات سے سترہ سال کا ہوگیا تھا ، اسی رات اس کے خواب میں ایک ساتھ بہت سے اژدھے اسے ڈسنے چلے آئے تھے ۔ہر اژدھا لمحے بھر میں ماسٹر شریف کی شکل جیسابن جاتا تھا ۔۔ ۔ وہی بجھتے دیوں جیسی آنکھوں پر موٹے موٹے شیشے کی عینک ، وہی بے ہنگم سی ناک کے نیچے بالوں کے سفید کالے گچھے ، وہی دودن کی بڑھی شیو میں چھپے ہوئے پتلے پتلے جھری جیسے گال اوروہی ماسٹر شریف کے بدن کی گندی بِساند جو رحیم داد کی سات سالہ معصوم روح کو زندگی بھر کے لیے متلا گئی تھی۔۔۔ سات سے سترہ سال تک رحیم داد ہر رات ماسٹر شریف کی شکل کے اژدہوں سے ڈسا جاتا رہا ، ہر رات اس سے لپٹے ہوئے سانپ اس کے بدن میں چھید کرتے رہے ،وہ اس کے بدن میں اس طرح رینگتے رہے جیسے وہ اس کا بدن نہیں بلکہ ان سانپوں کا بِل ہے ،وہ اس کے بدن سے اس طرح اگلتے رہے جیسے وہ اسی کے خون میں پل رہے تھے ۔ ۔ ماسٹر شریف تو دوسال بعد اسکول چھوڑ گئے مگر رحیم داد کی روح کو عمر بھر ڈسنے کے لیے رینگتے سانپ چھوڑ گئے ۔
کچھ سالوں کے لیے تو رحیم داد کی ہر ایک رات جیسے عذاب بن گئی تھی مگر پھر رفتہ رفتہ ایک عجیب سی تبدیلی آنے لگی ۔رحیم داد کو لگنے لگا جیسے اس کے بدن پر لپٹے سانپ اس کے لیے راحت کا سبب بنتے جارہے ہیں ۔۔۔ وہ جو اس کو ڈستے ہیں تو اس کا سارا بدن بجائے سانپوں کے زہر سے نیلا ہونے کے کسی نئی نویلی دلہن کے رخساروں کی سر خی کی طرح شرم سے لال ہوجاتا ہے۔۔۔ وہ جو کسی رات اس کے بدن کو چھید کر اس میں نہ رینگتے تو ساری رات اس کی کروٹیں لیتے گزرجاتی اوراگلے روز اسے لگتا جیسے اس کے سر کے نیچے دھڑ کی جگہ سانپوں کا خالی بِل لگا ہوا ہے جو اپنے مکینوں کے بغیر اداس ہے ، ایسے میں تمام دن اس کا دل بھاری بھاری رہتا اور تنہائی میں خوب ہی رونے کو چاہتا۔اسی طرح ایک دن رحیم داد سات سے سترہ برس کا ہوگیاا ور پھر پہلی بار۔۔۔اس کے خواب ٹوٹنے لگے۔
اس لڑکی کا نام زہرہ تھا ۔۔۔ ڈری ڈری نینوں والی ، سانولے تیکھے سے نقوش والی اور سر و جیسے قد والی زہر ہ ۔۔۔ جس کے ساتھ پہلی بار خالو نظام الدین کی بیٹی کی شادی میں رحیم داد کی نظریں چار ہوئیں اورپھر دوسری بار آپا نصیبن کے بچے کی روز ہ کشائی میں بھی وہ نظر آئی۔ پہلی بار تو زہرہ نے رحیم داد کوسرسری نظروں سے دیکھ کر نظر انداز کر دیا تھا مگر دوسری باراس کا دل رحیم داد کی نظروں کے متواتر تیروں سے گھا ئل ہوتا چلا گیا اور جب رحیم داد نے اسے اپنے اور اس کے گھر کے بیچ ریلو ے جنکشن پر ملنے کے لیے کہا تو کچھ دیر ہچکچانے کے بعد وہ ملنے کو راضی ہو گئی۔
ا س شام ریلوے جنکشن پر ڈوبتے دل اور کانپتے بدن کے ساتھ زہر ہ اپنے چھوٹے بھائی کی انگلی تھامے لکڑی کی بینچ پر بیٹھی سہمی
سہمی نظروں سے رحیم داد کو تک رہی تھی ۔رحیم داد بوجھل نگاہوں سے کبھی زہرہ کو دیکھتا تو کبھی ریلوے جنکشن پر پڑی آ ڑی ترچھی ریل کی
پٹریوں کو دیکھتا تھا۔۔۔۔دونوں کی نظریں لمحے بھر کے لیے ٹکراتی اور پھر کسی ان دیکھی ٹرین پر سوار ہوکر ان آڑی ترچھی پٹریوں پر بے تہاشہ دوڑنے لگتی۔۔۔ زہرہ پہلے پیار کے نشے میں چُور پسینے سے شرابور تھی، دل حلق میں دھڑک رہا تھا اور کان کی جلتی ہوئی روؤں سے رخسار دہک رہے تھے۔رحیم داد بوجھل قدموں اور نیم مردہ بدن کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن پرزہرہ کا ہاتھ تھامے اپنی منزل کی تلاش میں دوڑ رہاتھا۔۔۔مگر ماسٹر شریف کی شکل کے اژدہے ہر اسٹیشن پر اسکے پہلے پیار کو نگلنے کے لیے تیار بیٹھے تھے ۔۔۔آ ہستہ آہستہ راستے کی مسافت بڑھتی چلی گئی، رحیم داد کی سا نسیں ٹوٹنے لگیں ،اس کے بوجھل قدم اس کا چھوڑنے لگے ،نیم مردہ بدن کی روئیں کانپنے لگیں ، گردن کی نسیں پھولنے لگیں اور اس سے پہلے کہ اس کے سترہ سال تک پلنے والے سارے خوا ب ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوجاتے ۔
رحیم داد نے زہرہ کے چھوٹے بھائی کو چمکار کر گود میں بیٹھا لیا۔