پڑے ہیں راہ میں جور و جفا کے سلسلے کتنے
پڑے ہیں راہ میں جور و جفا کے سلسلے کتنے
مرے سر سے گزرنے کو ابھی ہیں حادثے کتنے
کبھی شعلے پئے میں نے کبھی طوفاں سے ٹکرایا
مرے سینے پہ لکھے ہیں جنوں نے حوصلے کتنے
ادھر لوہے کے دروازے ادھر چاندی کی دیواریں
ابھی انسان سے انسان تک ہیں فاصلے کتنے
بکھر کر ایک دل ڈھلتا ہے کتنے ہی فسانوں میں
گیا جب ٹوٹ آئینہ تو آئینے بنے کتنے
چلن تھا آندھیوں کا اور اندھیروں کی حکومت تھی
دیے خود ہی بتائیں گے جلے کتنے بجھے کتنے