پاس میں روح وفا ہو جیسے
پاس میں روح وفا ہو جیسے
دل مرا جلتا دیا ہو جیسے
اس طرح جیتا ہوں میں تیرے بغیر
زندگی ایک سزا ہو جیسے
لب پہ یوں نام ترا آتا ہے
آخر شب کی دعا ہو جیسے
دل مرا توڑا ہے ہنستے ہنستے
یہ ترا عہد وفا ہو جیسے
یوں تیری مست نظر اٹھتی ہے
در مے خانہ کھلا ہو جیسے
پل میں مرجھا کے گرا شاخ سے پھول
مسکرانے کی سزا ہو جیسے
غم ملا تیرا لپٹ کر مجھ سے
یار دیرینہ ملا ہو جیسے
اف یہ عالم تری انگڑائی کا
گل ہو اور موج صبا ہو جیسے
دل میں آئی ہے تری یاد حبیبؔ
شاخ میں پھول کھلا ہو جیسے