شام کا مسئلہ کیوں، کب اور کیسے؟؟؟

بشارالاسد جولائی 2000ء سے شام پر حکومت کر رہے ہیں جبکہ ان کے والد حافظ الاسد نے 29 سال حکومت کی۔ 2011ء میں عرب بہار کی لہر چل پڑی تو شامی عوام نے  بشار حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ 15 مارچ کو شروع ہونے والے  مظاہروں کو جب  بشار حکومت نے کچلنا شروع کر دیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ ایک طویل جنگ کی شکل اختیار کریں گے۔ جولائی 2011  میں ائرفورس کے چند افسران نے بغاوت کر دی۔ ان افسران نے فری سیرین آرمی کے نام سے ایک گروپ بنایا، جو حکومت مخالف لوگوں پر مشتمل تھا اور باغی گروپ کے نام سے مشہور ہوا ۔ پھر اس جنگ میں امریکا، روس ایران اور ترکی بھی کود گئے اور جنگ ایک ڈرامائی مرحلے میں داخل ہو گئی۔

لبنان کی حزب اللہ اور ایران کے شیعہ ملیشیا کے ساتھ ساتھ علوی فرقے کے لوگوں اور کردوں نے بھی بشار کی حمایت کی۔۔ یوں شام میں تقریباً ایک درجن گروہ ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے۔۔

علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے بشار کا اصل ہدف سُنی علاقے تھے۔ یاد رہے شام میں 70 فی صد سُنی، 20 فی صد شیعہ اور 10 فی صد غیر مسلم ہیں۔ سو جہاں سُنی آبادی کی اکثریت تھی، وہ علاقے سب سے زیادہ تباہی سے دوچار ہوئے۔ جن میں حمص، حلب، ادلب اور دمشق کا مشرقی حصہ شامل ہیں۔

سیرین آبزرویٹری ہیومن رائٹس (SOHR) کے مطابق ان نو سالوں میں 386000 لوگ مارے گئے۔ جن میں عام شہریوں کی تعداد 226000 ہے۔ جبکہ باقی تعداد شامی فوج اور باغیوں کی ہیں۔ تقریباً 22000 بچے زندگیوں سے محروم ہو گئے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 600 سیاسی اور دیگر قیدی جیلوں میں مارے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے فروری 2017 ء کے رپورٹ کے مطابق 13000 ہزار لوگ حکومتی جیلوں میں پھانسی پر لٹکائے گئے (بعد کے تین سالوں میں اس میں اضافہ بھی ہوا ہے)۔ اس کے علاوہ شامی اتھارٹیز کے ہاتھوں ہزاروں لوگ مارے گئے۔ مرنے والے ہیلتھ ورکرز کی تعداد 800 کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں  ایک کروڑ لوگ بے گھر ہوگئے۔

سب سے زیادہ خونی سال 2015 ء ہے، جس میں 74ہزار لوگ جان سے گئے۔ صرف جولائی 2017 ء میں 1590 لوگ مارے گئے۔

 مراکز صحت کو بھی نہیں چھوڑا گیا، حتیٰ کہ حلب کے 9 بڑے ہسپتالوں میں سے 8 روسی فوج کی بمباری سے تباہ ہوگئے۔ عبادت گاہیں بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہیں، ملک بھر میں 14 ہزار مساجد شہید ہوئیں، جن میں کئی تاریخی مساجد بھی شامل ہیں۔ مسجد خالد بن الولید حمص، مسجد زکریہ حلب، مسجد عمر بن الخطاب دارا میں، خلافت عثمانیہ دور کی عدلی مسجد، مصر کے سلجوق حکمرانوں کے دور میں بنائی گئی قشلہ مسجد جو نہانو ضلع میں واقع ہے۔

اس کے علاوہ 30 چرچ  اور بڑی تعداد میں سینا گاگزتباہ ہو گئیں۔

اس تمام صورتحال میں روس اور ایران کا کردار انتہائی منفی رہا۔ روس نے بشار کے دفاع کے لیے معصوم شہریوں پر بمباریاں کیں، شامی فوج کو کیمیائی ہتھیار فراہم کیے۔ جسے شامی فوج نے اپنے لوگوں پر بےدردی سے استعمال کیا۔ ایران نے بشار کو شیعہ ملیشیا کی صورت میں افرادی قوت کے علاوہ 9 ارب ڈالر کی امداد دی۔ یوں ایران نے  اپنے مسلمان بھائیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ دیے۔

ترکی نے اپنی سرحد سے ملحقہ شامی صوبے ادلب میں شامی فوج کے خلاف آپریشن شروع کیا، جو کافی کامیاب رہا۔ ترکی کا موقف ہے کہ انہوں نے بارڈر کے اندر تیس کلومیٹر کا علاقہ کلئیر کرنا ہے تاکہ وہاں شامی مہاجرین کو آباد کیا جا سکے۔

اب جبکہ خانہ جنگی دسویں سال میں داخل ہو چکی ہے۔ امریکا اور روس نے خوب مفادات سمیٹے۔ روس نے اسلحہ فروخت کیا، اور امریکا  نے یہاں سے دو ٹن سونا لوٹ لیا۔

اس تمام تر صورتحال میں عرب لیگ اور او آئی سی نے خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔ مسلمان ممالک نے بھی کبوتر کی طرح آنکھیں کیے بند رکھیں۔ عرب حکمرانوں کی منافقت بھی عیاں ہو گئی اور ان کے بدن سے جھوٹے خادم حرمین کا لبادہ اتر گیا۔

بین الاقوامی تنظیموں نے بعثت پارٹی، باغی گروپ، روس، ترکی اور امریکی اتحادیوں کی  کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

خانہ جنگی نے بڑے پیمانے پر مہاجرین کے بحران کو جنم دیا۔ 56 لاکھ لوگوں نے ملک چھوڑا۔ جن میں 40 لاکھ ترکی، 15 لاکھ اردن اور 6 لاکھ لبنان میں پناہ گزین ہوئے۔ اس تمام جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی طرف سے امن کے لیے کئی اقدامات ہوئے جن میں مارچ 2017 میں جینیوا         امن مذاکرہ شامل ہے۔

5 مارچ 2020 کو ترکی اور روس نے ادلب میں سیز فائر کا اعلان کیا اور امن کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن مستقبل قریب میں جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آرہی۔

جنگ کے تناظر میں لکھی گئی ساحر لدھیانوی کی نظم:

خون اپنا ہو یا پرایا ہو

نسل آدم کا خون ہے آخر

جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں

امن عالم کا خون ہے آخر

بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر

روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے

کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے

زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں

کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے

فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ

زندگی میّتوں پہ روتی ہے

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

آگ اور خون آج بخشے گی

بھوک اور احتیاج کل دے گی

اس لئے اے شریف انسانو

جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں

شمع جلتی رہے تو بہتر ہے