نکل کر سایۂ ابر رواں سے

نکل کر سایۂ ابر رواں سے
رہے ہم مدتوں بے سائباں سے


زمیں پر چاند آنا چاہتا ہے
اتر کر کشتی آب رواں سے


نگاہیں ڈھونڈتی ہیں رفتگاں کو
ستارے ٹوٹتے ہیں آسماں سے


مناتے خیر کیا ہم جسم و جاں کی
اسے چاہا تھا ہم نے جسم و جاں سے


رساؔ کس عہد نا پرساں میں ہم نے
لیا ہے کام حرف رایگاں سے