نیندیں خراب کرکے جو ہم بات کر رہے
نیندیں خراب کرکے جو ہم بات کر رہے
کیوں پھر نہیں وہ ہم سے ملاقات کر رہے
نظریں نظر سے ملنے پہ سدھ بدھ نہ کچھ رہی
آنکھوں سے اپنے ایسے کرامات کر رہے
اشکوں کے سنگ آنکھ سے بہنا پڑا اسے
پتھر پہ اور ہم نہیں برسات کر رہے
کچھ بھی نہیں بچا ہے کہ جس کا غرور ہو
یہ زندگی بھی اس کو لو خیرات کر رہے
اپنے تصورات سے چہرہ بنایا اک
چہرہ بنا کے اس سے خرافات کر رہے
کیسے کریں گے ابتدا اک کشمکش سی تھی
جھمکوں کی بات کر کے شروعات کر رہے