نظم
مرے تخیل کو بولنے کا ہنر نہیں تھا
حروف جتنے خرد کی فرہنگ میں پڑے تھے
میں ان کو چننے کے فن سے واقف تھا اور ترتیب جانتا تھا
میں سب تراکیب جانتا تھا
مگر کمی تھی
کمی بھی ایسی کہ جس سے الفاظ نیم مردہ سے لگ رہے تھے
میں سارے گر آزما کے جب تھک گیا تو سگریٹ جلا لیا تھا
اور آنکھیں موندے ترے خیالوں میں کھو گیا تھا
اس ایک لمحے خرد کی فرہنگ میں لکھے سب حروف رنگین ہو رہے تھے
ترے سراپے کو دیکھتے ہی حروف سارے قلم سے قرطاس پر اترنے کو ہاتھ باندھے کھڑے ہوئے تھے
کہ جیسے تیرے غلام ہوں سب
مرے تخیل کو بولنے کا ہنر ملا
نظم ہو گئی تھی