نین میں خوں بھر آیا دل میں خار غم چھپا شاید

نین میں خوں بھر آیا دل میں خار غم چھپا شاید
ہوا اس دم وہ تیغ ابرو کسی سے آشنا شاید


گلے لگتا تھا ہر گرد ہوا اورد سے مجنوں
کہ خاک کوچۂ لیلیٰ لے آئی ہو صبا شاید


قیامت پا نمک ہے غل دوانوں کا گلستاں میں
انہوں کے زخم دل پر شور بلبل جا گرا شاید


ہمارے ہاتھ اک مو گئی نئیں اور پیچ کھاتی ہے
وہ دام زلف میں تازہ شکار دل پھنسا شاید


بہت منہ پر وہ زلفیں آج بکھراتا ہے اے عزلتؔ
وہ گالوں پر کسی کا زخم دنداں ہے لگا شاید