نیا مے کدے میں نظام آ گیا

نیا مے کدے میں نظام آ گیا
اٹھیں بندشیں اذن عام آ گیا


نظر میں وہ کیف دوام آ گیا
کہ گویا کسی کا پیام آ گیا


محبت میں وہ بھی مقام آ گیا
کہ مژگاں پہ خوں لب پہ نام آ گیا


سر راہ کانٹے بچھاتا ہے شوق
جنوں کو بھی کچھ اہتمام آ گیا


نہ الزام ان پر نہ اغیار پر
یہ دل آپ ہی زیر دام آ گیا


بدل ہی گیا بزم عشرت کا رنگ
مرا نغمۂ درد کام آ گیا


کدھر سے یہ سنکی مہکتی ہوا
کدھر سے وہ نازک خرام آ گیا


تماشا نہیں تھا مرا اضطراب
کوئی کیوں یہ بالائے بام آ گیا


بیاں ہو رہا تھا فسانہ مرا
مگر بار بار ان کا نام آ گیا


کبھی سامنے کچھ خموشی رہی
کبھی دور سے کچھ پیام آ گیا


جو دار و رسن سے بھی رکتا نہیں
سروں میں وہ سودائے خام آ گیا


وہ زیدیؔ وہی رند آتش نوا
وہ زندہ دلوں کا امام آ گیا