نرم لہجے میں تحمل سے ذرا بات کرو
نرم لہجے میں تحمل سے ذرا بات کرو
پھر بصد شوق سر عام مجھے مات کرو
یا نثار آج کرو مجھ پہ تمام اپنے ہنر
یا نظر بند مرے سارے کمالات کرو
میں روایات سے باغی تو نہیں ہوں لیکن
تم سے ممکن ہو تو تبدیل خیالات کرو
ایک مدت سے مرے دل کا نگر ہے ویراں
آؤ اس دشت پہ تم پھولوں کی برسات کرو
فصل اجالوں کی سیہ بخت زمیں اگلے گی
زر نگار اپنے ذرا کشف و کرامات کرو
اس طرح مل کے بچھڑنا تو قیامت ہوگا
مشتعل تم نہ مری جاں مرے جذبات کرو
بے نیازی تو ملا کرتی ہے دنیا سے خیالؔ
تم کسی طور نہ تجدید غم ذات کرو