نئی نسل کی دعا
میرے خوابوں کی تعبیر سے بھی حسیں
میرے آبا و اجداد کی سر زمیں
مجھ کو ایسے لگا
جیسے میں تیرا بیٹا نہیں
وہ عمارات جو تیری عظمت کی اک زندہ
تصویر تھیں
اب کھنڈر بن چکیں
ہر طرف خامشی اور مکڑی کے جالے
ہر اک شے پہ برسوں سے کائی کی تہہ جم چکی ہے
عجب ایک پر ہوں سا یہ سماں ہے
کہیں پر نہ اب ہیں نشان پاؤں کے
جہاں سے کئی قافلے منزلیں مارتے
نئے دور کے جو پیامی بنے تھے
مگر اب وہ رستے
زمانے کی اڑتی ہوئی گرد میں دب چکے ہیں
نہ اب یہ فضا
ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہی گونجتی ہے
صدائیں
خلاؤں کے اندھے کنوئیں میں
کہیں گم ہوئی ہیں
کہ جیسے مرا اب کسی شے سے بھی کوئی رشتہ نہیں ہے
میں ان کے لئے اجنبی ہوں
وہ میرے لئے اجنبی ہیں
میں فقط حال کے ایک بجرے میں بیٹھا
سمندر کی لہروں
ہواؤں کی سمتوں کے رحم و کرم پر
فضاؤں میں گویا معلق ہوا ہوں
کہیں دور تک پاؤں دھرنے کی خاطر زمیں ہی نہیں ہے
عجب زندگی ہے
اگرچہ ہوں زندہ
مگر زندہ رہنے کی خواہش نہیں ہے
اے زمیں
اے زمیں
مجھ پہ اپنے درخشندہ ماضی کے دروازے وا کر
مری خالی آنکھیں نئے خواب سے بھر
مجھے لذت حال سے آشنا کر