نہیں چلتی کوئی تلوار پانی پر
نہیں چلتی کوئی تلوار پانی پر
کہ خالی جاتا ہے ہر وار پانی پر
تجھے ملنے کی خاطر شوق سے اے جاں
میں چل کر آتا تھا ہر بار پانی پر
ہماری رنجشوں نے دل کے آنگن میں
بنا رکھی ہے اک دیوار پانی پر
مجھے وہ جھیل پر ملنے کو آیا پھر
مجھے ہونے لگا دیدار پانی پر
گلے ملنے لگیں پرچھائیاں دونوں
ملن ہونے لگا ساکار پانی پر
کبھی چلتے کبھی ہم ڈوب جاتے ہیں
کیے ہیں تجربے اے یار پانی پر
یہاں ہر سال جب برسات آتی ہے
تو بنواتی ہے یہ گھر بار پانی پر
مجھے کل شام اک منظر دکھا جس میں
سبھی میں ہو رہی تھی مار پانی پر
غضب ہے لوگ پانی بیچ دیتے ہیں
چلا رکھے ہیں کاروبار پانی پر