ناز بت مہوش پر قربان دل و جاں ہے

ناز بت مہوش پر قربان دل و جاں ہے
یہ شان خدا شاہد غارت گر ایماں ہے


جو بات بھی ہے پیاری جو چال بھی ہے اچھی
آن اس کی نہیں مخفی شان اس کی نمایاں ہے


ہم راہ چلوں اس کے کچھ بات کروں اس سے
مدت سے یہ حسرت ہے مدت سے یہ ارماں ہے


وہ مجھ کو دکھاتے ہیں ہر آن نیا جلوہ
میرے لیے ہر جلوہ سرمایۂ احساں ہے


گرداب حوادث میں خوش ہوں کہ مری کشتی
نا دیدۂ ساحل ہے پروردۂ طوفاں ہے


ہنستا ہوا آیا ہے ہنس ہنس کے رلائے گا
وہ عہد شکن پھر اب آمادۂ پیماں ہے


منظورؔ اسے دل دینا دل دے کے خلش لینا
یہ بھی کوئی حسرت ہے یہ بھی کوئی ارماں ہے