نہ شام ہے نہ سویرا عجب دیار میں ہوں

نہ شام ہے نہ سویرا عجب دیار میں ہوں
میں ایک عرصہء بے رنگ کے حصار میں ہوں


سپاہ غیر نے کب مجھ کو زخم زخم کیا
میں آپ اپنی ہی سانسوں کے کار زار میں ہوں


کشاں کشاں جسے لے جائیں گے سر مقتل
مجھے خبر ہے کہ میں بھی اسی قطار میں ہوں


شرف ملا ہے کہاں تیری ہمرہی کا مجھے
تو شہسوار ہے اور میں تیرے غبار میں ہوں


اتا پتا کسی خوشبو سے پوچھ لو میرا
یہیں کہیں کسی منظر کسی بہار میں ہوں


میں خشک پیڑ نہیں ہوں کہ ٹوٹ کر گر جاؤں
نمو پزیر ہوں اور سرو شاخسار میں ہوں


نہ جانے کون سے موسم میں پھول مہکیں گے
نہ جانے کب سے تری چشم انتظار میں ہوں


ہوا ہوں قریۂ جاں میں کچھ اس طرح پامال
کہ سر بلند ترے شہر زر نگار میں ہوں