نہ رنگ و بو ہے نہ کیف و نغمہ نظر میں بھی دل ربا نہیں ہے

نہ رنگ و بو ہے نہ کیف و نغمہ نظر میں بھی دل ربا نہیں ہے
میں کیسے سمجھوں بہار آئی کہ غنچہ دل کا کھلا نہیں ہے


تری محبت کے خواب دیکھے تری محبت کے گیت گائے
تیری محبت میں کیا نہ پایا تیری محبت میں کیا نہیں ہے


چھپاؤں زخموں کے اپنے دل میں نہ آئے نوک مژہ پہ آنسو
کرو نہ رسوا یوں اپنے غم کو کہ یہ تو رسم وفا نہیں ہے


وہ ساز دل جو کبھی تھا چھیڑا تری نظر نے بہ ناز و شوخی
وہ اب بھی نغمہ سرا ہے لیکن نکلتی کوئی صدا نہیں ہے


وہ گزرے وقتوں کی اب ہیں یادیں سہارے جن کے میں جی رہا ہوں
کہو نہ مجھ سے کہ ان میں کیا ہے یہ مجھ سے پوچھو کہ کیا نہیں ہے


نہ جانے تیری تلاش میں کیوں بھٹک بھٹک کر میں رہ گیا ہوں
وگرنہ ہر ذرۂ زمیں پر جہاں ترا نقش پا نہیں ہے


حیات کی شام کاش میری تری ہی یادوں میں بیت جائے
کہ وقت آخر یہ کہہ سکوں میں کہ زندگی سے گلا نہیں ہے


یہ بغض و نفرت کے شعلے ہر سو بنا رہے ہیں وطن کو دوزخ
ہمیں ہیں چپ چاپ اور بے حس کہ جیسے کچھ بھی ہوا نہیں ہے


مجھے ضرورت حبیبؔ کیا ہے چراغ دیر و حرم کی آخر
جو دل میں بھڑکا تھا شعلۂ غم وہ جل رہا ہے بجھا نہیں ہے