نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری

نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری
کٹے کیا برس زندگانی ہماری


عدو کی شب وصل سو بار صدقے
شب غم ہے کتنی سہانی ہماری


دغا دے رہے ہیں دم‌ نزع تم کو
یہ ہے وقت رخصت نشانی ہماری


کیے میں نے شکوے تو وہ ہنس کے بولے
عدو پر بھی ہے مہربانی ہماری


انہیں نے تو دیوانہ ہم کو بنایا
وہی اب کریں پاسبانی ہماری


یہ ساقی نے ساغر میں کیا چیز دے دی
کہ توبہ ہوئی پانی پانی ہماری


ستاتے ہیں ہم بھی حسینوں کو کیا کیا
ستاتی ہے ہم کو جوانی ہماری


لگی تھی جو مے منہ سے بھر توبہ کیوں کی
ہوئی تلخ کیا زندگانی ہماری


کیا جھوٹ وعدہ کریں ہم جو تجھ سے
ترے کام آئے جوانی ہماری


بہت بے اثر تم اسے جانتے تھے
زبانوں پر اب ہے کہانی ہماری


قفس دست صیاد میں ہم قفس میں
یہ کام آئی ہے خوش بیانی ہماری


ریاضؔ آپ ہم قدرداں اپنے نکلے
کسی نے نہ کی قدردانی ہماری