نہ پہنچے چھوٹ کر کنج قفس سے ہم نشیمن تک
نہ پہنچے چھوٹ کر کنج قفس سے ہم نشیمن تک
پر پرواز نے یاری نہ کی دیوار گلشن تک
وہ بیدل ہوں کہ مجھ سے دوستی کرتا ہے دشمن تک
وہ رہرو ہوں کہ مجھ کو راہ بتلاتا ہے رہزن تک
پس مردن یہ اے مشاطۂ باد صبا کرنا
ہماری خاک سرمہ بن کے پہنچے چشم روزن تک
خزاں میں دیکھ لینا وادیٔ پر خار سے بد تر
چمن بھی ہے بہار لالہ و نسرین و سوسن تک
کدھر آیا ہے دل پچھتاؤ گے ناداں نہ ہو دیکھو
نہ پہنچوں گے کبھی اے مہرؔ تم اس شوخ ہر فن تک