نہ جانے نکلے بڑے لوگ ہیں کہاں کی طرف
نہ جانے نکلے بڑے لوگ ہیں کہاں کی طرف
زمیں کی بات ہے اور آنکھ آسماں کی طرف
جہان والے سبھی تھک گئے فلک تکتے
خدا کبھی تو بھی تو دیکھا کر جہاں کی طرف
مرے بغیر مرا بے بسی سے مرنا ہو جائے
چلا ہے تیر کسی کا مری کماں کی طرف
تجھے حساب دے دوں تو نے کتنا قتل کیا
فرشتہ بن کے چلے آ کبھی یہاں کی طرف
ہے نازکی نے بھی تلوار تان دی وتسلؔ
یہ لفظ عشق چلا آیا جو زباں کی طرف