نہ جانے کس خیال سے رنجیدہ ہو گیا
نہ جانے کس خیال سے رنجیدہ ہو گیا
میں چہرہ اس کا دیکھ کے سنجیدہ ہو گیا
وہ دور تھا تو لگتا تھا آسان سا جواب
آیا قریب میرے تو پیچیدہ ہو گیا
اک لمحہ زندگی نے حسیں تر مجھے دیا
زانو پہ رکھ کے سر کو وہ خوابیدہ ہو گیا