نہ آرزؤں کا چاند چمکا نہ قربتوں کے گلاب مہکے
نہ آرزؤں کا چاند چمکا نہ قربتوں کے گلاب مہکے
نہ ہجرتوں کا عذاب سہتے ہوئے مسافر گھروں کو لوٹے
نہ آنگنوں میں درخت جاں پر وصال موسم کا بور جاگا
نہ ڈالی ڈالی کسی پرندے نے خوشبوؤں کے ترانے چھیڑے
ورق ورق زائچوں میں تحریر ایک سے تھے جواب لیکن
سوال چکھنے کی خام خواہش میں ہم نے کیا کیا عذاب چکھے
بس ایک ڈھلوان درمیاں ہے اور اس سے آگے کھلا جہنم
نہ جانے کس پل کی ایک لغزش عذاب صدیاں سمیٹ لائے
ہمیں خبر ہے کہ اپنے گھر کے چراغ کوئی گھڑی ہیں لیکن
ہمیں یقیں ہے کہ روشنی کی نوید سننے تلک جلیں گے
قبیلے والو اٹھو! اور اپنا بچاؤ کر لو، کہ میں نے کل شب
فصیل شہر اماں کے باہر نقب زنوں کے گروہ دیکھے