مجھے ملا وہ بہاروں کی سر خوشی کے ساتھ
مجھے ملا وہ بہاروں کی سر خوشی کے ساتھ
گل و سمن سے زیادہ شگفتگی کے ساتھ
وہ رات چشمۂ ظلمات پر گزاری تھی
وہ جب طلوع ہوا مجھ پہ روشنی کے ساتھ
اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ
یہ اتفاق ہیں سب راہ کی مسافت کے
چلے کسی کے لیے جا ملے کسی کے ساتھ
برا نہیں ہے مگر حسب تشنگی بھی کہاں
سلوک شہد لباں میری تشنگی کے ساتھ
فضا میں رقص ہے صہباؔ حسیں پرندوں کا
مجھے بھی حسرت پرواز ہے کسی کے ساتھ