مجھے جلووں کی اس کے تمیز ہو کیا میرے ہوش و حواس بچا ہی نہیں

مجھے جلووں کی اس کے تمیز ہو کیا میرے ہوش و حواس بچا ہی نہیں
ہے یہ بے خبری کہ خبر ہی نہیں وہ نقاب اٹھا کہ اٹھا ہی نہیں


مرے حال پہ چھوڑ طبیب مجھے کہ عذاب ہے مری زیست مجھے
میرا مرنا ہی میرے لیے ہے شفا میرے درد کی کوئی دوا ہی نہیں


اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو گئے ہمیں ہوا کیا اور کیا ہو گئے ہم
ہمیں پہروں تک اپنی خبر ہی نہیں ہمیں کوسوں تک اپنا پتا ہی نہیں


مرا حال خراب سنا تو کہا کہ وہ سامنے میرے نہ آئے کبھی
مجھے روتے جو دیکھا تو ہنس کے کہا کہ یہ شیوۂ اہل وفا ہی نہیں


جہاں کوئی ستم ایجاد کیا مجھے کہہ کے فلک نے یہ یاد کیا
کہ بس ایک دل بیدمؔ کے سوا کوئی قابل مشق جفا ہی نہیں