مجھ سے ایسا رابطہ رکھ دوستی قائم رہے

مجھ سے ایسا رابطہ رکھ دوستی قائم رہے
پیاس یوں بجھتی رہے کہ تشنگی قائم رہے


میری پلکوں کے تلے اب جو دیے جلنے لگے
ان دیوں کی ہر طرح سے روشنی قائم رہے


تجھ سے ملنے کی تڑپ بھی دل سے نہ ہو کم کبھی
تو ہو میرے سامنے اور بے خودی قائم رہے


میری آنکھوں میں رہے قائم ہجوم التفات
تیری آنکھوں میں سدا وارفتگی قائم رہے


رنگ تیری زندگی میں ہر طرف بکھرے رہیں
تو ہے میری زندگی یہ زندگی قائم رہے


تجھ سے میری گفتگو ہے آرزو کا سلسلہ
پھول مہکے ہیں تو ان کی تازگی قائم رہے