محاضرات حدیث


‎:ایکناز گولڈ زہیر ، ضیاء الرحمن اعظمی رح اور منکرین حدیث

ہمارے برصغیر و مصر کے منکرینِ حدیث میں بہت زیادہ اوریجنلٹی نہیں ہے۔ وہ تمام باتیں مغربی لوگوں کی ہی دہراتے رہتے ہیں۔ہمارا کوئی منکر حدیث ایسا نہیں ہے جس نے کوئی نئی بات اپنی طرف سے نکالی ہو۔

جرمنی کا ایک شخص تھا جو پچھلی صدی کے اواخر میں اور موجودہ صدی کے اوائل میں تھا ایکناز گوڈ زہیر، سب سے پہلے اس نے حدیث پر کام کا آغاز کیا اس کا ایک شاگرد تھا جوزف شخت یہ بھی جرمن تھا، دونوں جرمن یہودی تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے حدیث کے بارے میں بد گمانی پھیلائی۔

ان بدگمانیوں میں ایک بدگمانی یہ تھی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سن سات ہجری میں اسلام قبول کیا، اور سات ہجری کے بعد گویا صرف تین سال ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، ان سے جو روایات ہیں وہ پانچ ہزار بتائی جاتی ہیں اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی روایات تھوڑی ہیں جو طویل طویل عرصہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہے۔ جو آدمی صرف تین سال رہا اس نے تو پانچ، ساڑھے پانچ ہزار روایات بیان کیں اور جو بیس بیس، پچیس پچیس سال اور پوری زندگی ساتھ رہے ان سے مروی احادیث بہت تھوڑی ہیں۔

یہ گویا اس یہودی مستشرق کی نظر میں اس بات کا ثبوت تھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نعوذ باللہ غلط بیانی کیا کرتے تھے۔ انہی الزامات کو ان منکرین حدیث نے دہرایا (اور آج کل بھی تجدد پسند حلقوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ماضی قریب میں منکرین حدیث کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اگرچہ ملفوف ہیں )۔

ہمارے ایک دوست بڑے عالم فاضل انسان ہیں ۔علم حدیث پر انہوں نے بڑا کام کیا ہے۔ ان کا نام ضیاء الرحمن اعظمی ہے۔ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ہندو مت سے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے رشتہ داروں نے ان پر غیر معمولی مظالم ڈھائے اور اتنے مظالم کیے کہ ان کی تفصیل سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ نہ صرف اسلام پر قائم رہے بلکہ علم دین حاصل کیا اور علم حدیث میں تخصص پیدا کیا۔ وہ گزشتہ تقریباً پچیس تیس سال سے مدنیہ منورہ میں قیام پذیر ہیں، سعودی عرب کی شہریت ان کو ملی ہوئی ہے۔ مدنیہ منورہ جامعہ اسلامیہ میں حدیث کے استاد ہیں، انہوں نے علم حدیث پر جو کام کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی احادیث پر کام کیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی احادیث پر جو اعتراضات جوزف شخت اور ایکناز گولڈ زہیر نے اٹھائے تھے وہی اعتراضات مصر کے ایک منکر حدیث محمود ابوریہ نے بھی اٹھائے ہیں۔ محمود ابوریہ نے ایک کتاب لکھی۔ ابوہریرہ  و مرویاتہ۔ یعنی ابوہریرہ رضی اللہ اور ان کی روایات۔

اور اس کتاب میں وہی باتیں دہرائیں جو یہودی مستشرقین بیان کرتے آئے ہیں ۔ہمارے ہاں منکرین حدیث نے بھی یہی باتیں بار بار دہرائیں۔

ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن اعظمی نے کمپیوٹر کی مدد سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساری روایات کو جمع کیا۔ ان کے تمام طرق کو جمع کیا اور یہ ثابت کیا کہ جو متون ہیں وہ کل پندرہ سو کے قریب ہیں ،باقی سارے طرق ہیں۔ اب پندرہ سو متون کا ایسے آدمی کے لیے یاد رکھنا، جو لکھتا بھی ہو، تین سال میں کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ روزانہ اوسطاً دو تین حدیثیں بھی نہیں بنتیں۔  ایک آدمی تین چار پانچ احادیث تو روزانہ لکھ سکتا ہے اور یاد بھی کر سکتا ہے اس میں ایسی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

یہ ضیاء الرحمٰن اعظمی کی کتاب میں تمام تفصیل موجود ہے۔ اس کتاب کا نام بھی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و مرویاتہ ہے۔

دراصل مستشرقین اور منکرین حدیث کو چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے راستہ سے حدیث پر اعتراض کا موقع ملتا ہے اس لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی احادیث کو زیادہ نشانہ بناتے ہیں۔

 

محاضرات حدیث، باب تدوین حدیث ص 287